بلاعنوان

239

zc_Nasirیہ کیسی بدنصیبی ہے کہ ہمارے ہاں پائے جانے والے سیاست دان حصول اقتدار اور استحکام اقتدار کے سوا کچھ اور سوچنے کے روادار ہی نہیں، انہیں دشمنی کا ہنر آتا ہے نہ دوستی کے آداب سے آگاہ ہیں۔ بھارت، ایران اور افغانستان ہمارے پڑوسی ہیں مگر ستر برس گزرنے کے بعد بھی صرف پڑوسی ہیں۔ چین بھی ہمارا پڑوسی ہے ہمیں اس کی دوستی پر فخر ہے مگر ہمارا فخر چین کا کارنامہ ہے۔ کیا ہمارے دانش وروں اور سیاست دانوں نے کبھی سوچا ہے کہ دوستی کبھی یک طرفہ نہیں ہوتی۔ دوستی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں کچھ آداب ہوتے ہیں کچھ سلیقے، کچھ قرینے ہوتے ہیں۔



چین کے تعاون سے سی پیک کا منصوبہ بڑی تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کررہا ہے مگر کچھ حلقے اس منصوبے کے معاملے میں تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف سی پیک کے لیے پنجاب اور بلوچستان کو اہمیت دیتے تھے مگر چین کو خدشہ ہے کہ اگر اقتدار کا ہُما پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی کے سر پر آن بیٹھا تو پختونخوا اور سندھ کو اہمیت دی جائے گی جو سی پیک کی تکمیل میں تاخیر کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لیے چین نے سی پیک کے منصوبے کے حوالے سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع کا مشورہ دیا تھا۔ قوم بھی یہی چاہتی تھی مگر میاں نواز شریف نے دوستی کی پاسداری کی نہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا بلکہ جنرل راحیل شریف کے خلاف بیان بازی کے لیے اپنے عقاب نما گدھ کھلے چھوڑ دیے۔ جنرل صاحب نے تحمل اور دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اعلان کیا کہ انہیں ملازمت میں توسیع کی خواہش نہیں۔ میاں نواز شریف نے سکھ کا سانس لیا کیوں کہ وہ دوسروں کی مقبولیت کو گوارا کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے۔ میاں نواز شریف اب وزیراعظم نہیں رہے تو چین کو سی پیک کے منصوبے میں تاخیر کے خدشات ہورہے ہیں۔



چین کو یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر 2018ء کے الیکشن میں حکومتی ٹیم ہار گئی تو آنے والی حکومت کو سی پیک سے کس حد تک دلچسپی ہوگی۔ چین ہمارا ایسا دوست ہے جو ہماری رگ رگ سے واقف ہے وہ ہم سے زیادہ ہمیں جانتا ہے۔ 1962ء میں چین نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے جنگ کا مشورہ دیا تھا مگر اس کے مشورے پر عمل نہ کیا گیا۔ 1965ء میں بھارت سے لڑائی، لڑائی کھیلنے کے بجائے جنگ کرنے پر زور دیا مگر درآمد ہدایت کے مطابق 17 دن تک لڑائی لڑائی کھیلے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان دوستی میں محبوب بننے کے بجائے معشوق بننا پسند کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف ہی کو دیکھ لیں جب تک برسراقتدار رہے معشوق کی طرح نخرے کرتے رہے۔ سمجھانے والوں نے بہت سمجھایا کہ اداروں سے ٹکراؤ لہولہان کر سکتا ہے مگر ان کے زرخرید ہر ادارے کے سربراہ کو اوقات میں رہنے کا حکم نما مشورہ دیتے رہے۔ جمہوریت پسند لوگوں نے بہت سمجھایا کہ بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو مگر خود سری اور سرکشی کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔



میاں صاحب بیرون جسم تو بہت رہ لیے اب اندرون جسم رہ کر سوچیے کہ عدالت عظمیٰ نے آپ کو اقامت گاہ سے نکالنے کے بجائے اقامہ کیوں نکالا، آپ کو اڈیالہ جیل بھی بھیجا جاسکتا تھا، ویسے امکان کو مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا، فی الوقت ایسا نہیں ہوا۔ کیوں؟۔ کیوں کہ عدلیہ آپ کو اوقات یاد دلانا چاہتی تھی آپ کے بھونپو! اکثر کہا کرتے تھے کہ جج اپنی اوقات میں رہیں۔