الفاظ کی توہین کا زمانہ

650

       zc_Shah-Nawaz-Farooqi-3ہمارا زمانہ الفاظ کی توہین کا زمانہ ہے۔ کنفیوشس نے کہا تھا کہ اگر مجھے زندگی میں صرف ایک کام کرنے کا موقع ملے تو وہ کام ہوگا الفاظ کے معنی کا تعین۔ الفاظ کے معنی کا تعین اس لیے ضروری ہے کہ الفاظ کا غلط استعمال نہ ہو۔ الفاظ کا تعین اس لیے ضروری ہے کہ کوئی الفاظ کے معنی کو مجروح یا Distort نہ کرے۔ الفاظ کے معنی کا تعین اس لیے ضروری ہے کہ زندگی میں ابہام نہ پیدا ہو۔ الفاظ کے معنی کا تعین اس لیے ضروری ہے کہ زندگی یقین سے ہمکنار رہے۔ الفاظ کے معنی کا تعین اس لیے ضروری ہے کہ الفاظ کی توہین نہ ہو۔ الفاظ کی توہین اس لیے اہم ہے کہ الفاظ کی توہین زندگی کی توہین ہے۔ الفاظ کی توہین اس لیے اہم ہے کہ الفاظ کی توہین انسان کی توہین ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا زمانہ الفاظ کی توہین کا زمانہ ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمارا زمانہ انسان اور زندگی کی توہین کا زمانہ ہے۔ لیکن الفاظ کی توہین کیسے ہوتی ہے؟ حال ہی میں اس کی چند بڑی مثالیں ہماری قومی زندگی کا حصہ بنی ہیں۔
عطا الحق قاسمی ملک کے معروف کالم نویس ہیں۔ وہ میاں نواز شریف کے زبردست حامی ہیں۔ ان دونوں باتوں میں کوئی برائی نہیں۔ برائی یہ ہے کہ عطا الحق قاسمی نے اپنے ایک حالیہ کالم میں میاں نواز صاحب کو ’’نظریاتی‘‘ قرار دیا ہے۔ میاں نواز شریف کی پوری سیاسی زندگی قوم کے سامنے ہے۔ اس زندگی میں بے پناہ دولت ہے، بے پناہ کامیابی ہے، بے پناہ شہرت ہے۔ مگر اس زندگی میں میاں صاحب کے ’’نظریاتی‘‘ ہونے کی معمولی سی شہادت بھی موجود نہیں ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عطا الحق قاسمی نے میاں صاحب کو نظریاتی قرار دے کر لفظ نظریاتی کو ایک گالی بنادیا ہے۔ یہی لفظ کی توہین ہے، یہی لفظ کے معنی کی تحقیر ہے،



یہی لفظ کے باطن کی تخریب ہے، یہی زندگی اور انسان کی توہین ہے۔ ان باتوں کی پشت پر ایک بہت ہی قوی دلیل ہے۔
نظریاتی شخص کا ایک نظریہ حیات ہوتا ہے۔ مثلاً سوشلزم باطل نظریہ تھا مگر بہرحال وہ ایک نظریہ تھا۔ اس کی ایک الٰہیات تھی، اس کی ایک کونیات یا Cosmology تھی، اس کا ایک تصور انسان تھا، اس کا ایک تصورِ زندگی تھا، اس کا ایک تصور معاشرہ تھا، اس کا ایک تصور ریاست تھا۔ یہاں تک کہ اس کا ایک تصور ادب بھی تھا۔ اس تناظر میں کارل مارکس ایک نظریاتی انسان تھا۔ یعنی ایک نظریاتی شخص تھا۔ گورکی ایک نظریاتی ادیب تھا۔ پوری قوم جانتی ہے کہ میاں صاحب کبھی سوشلسٹ نہیں رہے، بلاشبہ کچھ عرصے سے سابق سوشلسٹ دانش وروں، ادیبوں اور صحافیوں کا ایک گروہ ان کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھا ہے مگر بہرحال میاں صاحب نے کبھی سوشلزم کو اپنا نظریہ حیات قرار نہیں دیا۔ سوشلزم کے برعکس اسلام حق ہے۔ اس کی بھی ایک الٰہیات ہے، اس کی بھی ایک کونیات ہے، اس کا بھی ایک تصور انسان ہے، اس کا بھی ایک تصور معاشرہ ہے، اس کا بھی ایک تصور ریاست ہے۔ اس لیے مولانا مودودی مرحوم نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات قرار دیا ہے۔ بلاشبہ میاں نواز شریف مسلمان ہیں مگر انہوں نے اپنی گزشتہ 30 سال کی سیاست میں کبھی اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات تسلیم کرکے اس کے غلبے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ اس کے برعکس پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے سود کی ہر صورت کو حرام قرار دیا تو میاں صاحب اس فیصلے کے خلاف عدالت پہنچ گئے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ میاں صاحب اسلام کے حوالے سے بھی نظریاتی نہیں ہیں۔



مذہبی اعتبار سے یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ سیکولر ازم اور لبرل ازم بھی مخصوص معنوں میں باطل نظریات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن سوشلزم اور اسلام کی طرح نظریاتی کے بھی اساس تصورات ہیں۔ ساری قوم گواہ ہے کہ میاں صاحب نے آج تک اعلان نہیں کیا کہ وہ سیکولر ازم کو ایک نظریہ حیات کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھے ہوئے امریکی اور بھارتی لابی کے ٹٹ پونجیے دانش ور، ادیب اور صحافی میاں صاحب کو سیکولر بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں اور میاں صاحب جھوم جھوم کر ان کی باتیں سن رہے ہیں مگر بہر حال میاں صاحب نے خودکو ابھی تک سیکولر ازم کا علمبردار نہیں کہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میاں صاحب سیکولر ازم کے حوالے سے بھی نظریاتی نہیں ہیں۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ پھر عطا الحق قاسمی نے میاں صاحب کو ’’نظریاتی‘‘ قرار دے کر لفظ نظریاتی کی توہین کیوں کی ہے؟۔ کیا لفظ نظریاتی عطا الحق قاسمی کی ذاتی میراث ہے؟ کیا یہ لفظ انہیں جہیز میں ملا تھا؟۔ عطا الحق قاسمی خود کو ادیب، شاعر اور صحافی کہتے ہیں اور ان تمام شعبوں کا تعلق لفظ اور اس کی حرمت کے تحفظ سے ہے مگر اس کے باوجود ایک بالشتیے کو دیو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے لفظ نظریاتی کی مٹی پلید کر ڈالی ہے۔ بدقسمتی سے اپنے ایک بیان میں خود میاں نواز شریف نے بھی فرمایا ہے کہ میں پہلے زیادہ نظریاتی نہیں تھا۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ بیان سفید جھوٹ سے بھی آگے کی چیز ہے۔ لیکن بقول شاعر؂



کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
جب میاں صاحب کے گرد بیٹھے دانش ور، ادیب اور صحافی اُن سے کہیں گے کہ آپ تو نظریاتی ہوگئے ہیں تو میاں صاحب کو اس بات پر یقین کیوں نہ آئے گا؟۔ مگر عطا الحق قاسمی نے صرف لفظ نظریاتی کی عزت و حرمت پر حملے نہیں کیے۔
کچھ عرصے قبل انہوں نے ایک کالم میں میاں نواز شریف کو Visionary قرار دیا تھا۔ اس لفظ کا آسان اردو میں ترجمہ کیا جائے تو وہ ’’صاحب بصیرت‘‘ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب کو صاحب بصیرت کیا ’’صاحب بصارت‘‘ کہنا بھی مشکل ہے۔ اس لیے کہ ان کی ایک آنکھ میں طاقت اور دوسری آنکھ میں دولت کی روشنی ہے۔ تاریخ کا طویل تجربہ بتاتا ہے کہ طاقت اور دولت انسان کو اندھا بناتی ہیں۔ تاریخ میں پیغمبروں کا انکار کرنے والے اکثر لوگ طاقت ور اور دولت مند ہوئے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص کی بصارت کو ثابت کرنا مشکل ہے عطا الحق قاسمی اسے ’’صاحب بصیرت‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ صاحب بصیرت کسے کہتے ہیں؟ اس سوال کا ایک آسان جواب یہ ہے کہ جو دیوار کیا زمانوں کے پار دیکھ سکتا ہو۔ ہماری حالیہ تاریخ میں اس کی ایک مثال اقبال ہیں۔ دوسری مثال مولانا مودودی ہیں۔ اقبال اور مولانا مودودی کی بصیرت کی ایک مثال یہ ہے کہ جب کوئی اسلام کو عروج کی طرف جاتا ہوا نہیں دیکھ رہا تھا تو یہ دونوں اسلام کے عروج کی پیشگوئی کررہے تھے۔ جب کمیونزم پوری دنیا میں پھیل رہا تھا تو مولانا مودودی کہہ رہے تھے کہ ایک وقت آئے گا جب کمیونزم کو ماسکو میں بھی پناہ نہ ملے گی۔ عطا الحق قاسمی کو چاہیے کہ وہ بھی میاں صاحب کی بصیرت یا Vision کی کوئی مثال قوم کے سامنے پیش کریں۔ تازہ ترین واردات یہ ہوئی ہے کہ میاں صاحب نے لفظ انقلاب کی سرعام توہین کر ڈالی ہے۔



اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے انہوں نے ایک مقام پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ’’انقلاب‘‘ لائیں گے۔ انقلاب کو اپنی شخصیت کے ساتھ وابستہ کرکے میاں صاحب نے انقلاب کی پوری تاریخ پر تھوک دیا ہے۔ حالیہ تاریخ میں انقلاب کے چار نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ انقلاب فرانس کی پشت پر روسو اور والئیٹر جیسے فلسفیوں کے تصورات تھے۔ خوش قسمتی سے میاں صاحب روسو اور والئیٹر کا جوتا بھی نہیں ہیں۔ روس کا انقلاب کارل مارکس کے نظریے کی بنیاد پر آیا اور اسے لینن نے برپا کیا۔ کارل مارکس کا شمار دنیا کے عظیم مفکرین میں ہوتا ہے۔ لینن ایک جابر رہنما تھا مگر اس کی تقاریر 32 ضخیم جلدوں میں مرتب ہوئی ہیں اور ان میں دنیا کے ہر موضوع پر اظہار خیال ہے۔ میاں صاحب کی فکری اور لسانی سطح کا یہ عالم ہے کہ وہ اسلام آباد سے لاہور تک ایک ہی تقریر کو طوطے کی طرح دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ اس تقریر میں نئے فقرے بھی شامل نہ کرسکے۔ چین کا انقلاب ماؤ زے تنگ نے برپا کیا۔ ماؤ کی عظمت یہ ہے کہ اس نے ایک افیون خور قوم کو لانگ مارچ پر آمادہ کیا۔ میاں صاحب کی اہلیت یہ ہے کہ جنرل پرویز نے انہیں جوتے مار کر اقتدار سے نکالا تو وہ پندرہ دن بعد تک پورے ملک میں کہیں پندرہ لوگوں کا مظاہرہ بھی برپا نہ کرسکے۔ اس وقت بھی اس لیے جلسے جلوس کر پارہے ہیں کہ کہیں فوج کیا پولیس بھی موجود نہیں۔ خدانخواستہ فوج آگئی تو قوم دیکھے گی کہ میاں تیرے جاں نثار بے شمار ہوں گے یا سڑکوں اور گلیوں میں ایک بھی لیگی نظر نہ آئے گا؟۔ ایران کا انقلاب امام خمینی نے برپا کیا۔ امام خمینی ولایت فقیہہ تھے۔ آیت اللہ تھے، ایران کے دو بڑے عالموں میں سے ایک تھے۔ ایران کے عوام پر ان کا گہرا روحانی، اخلاقی اور علمی اثر تھا۔ مگر میاں صاحب کو ان چیزوں میں سے کسی کی بھی ہوا نہیں لگی۔ اس کے باوجود وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے نام اور شخصیت کے ساتھ انقلاب کے تصور کو وابستہ کررہے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ صرف میاں صاحب اور ان کے حواریوں سے منسلک نہیں۔



چند روز بیشتر معروف اینکر پرسن عامر لیاقت اپنے ایک پروگرام میں لفظ ایمان کی تذلیل کررہے تھے۔ وہ فرما رہے تھے کہ سیکولر بھی ہمارے ہیں، لبرل بھی ہمارے ہیں۔ اس بیان کو وسیع تناظر میں بیان کیا جائے تو عامر لیاقت صاحب فرما رہے تھے کہ ماذ اللہ حضرت ابراہیمؑ بھی ہمارے ہیں نمرود بھی ہمارا ہے۔ موسیٰؑ بھی ہمارے ہیں فرعون بھی ہمارا ہے۔ رسول اکرمؐ بھی ہمارے ہیں اور ابوجہل بھی ہمارا ہے، سیکولر ازم اور لبرل ازم کفر ہیں اور ایک حقیقی سیکولر اور لبرل شخص کبھی بھی صاحب ایمان کے جیسا نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ دینی، تہذیبی اور تاریخی معنوں میں اس کے لیے لفظ ’’ہمارا‘‘ کا استعمال درست نہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ بھٹو صاحب نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی تھی۔ یہ اصطلاح اسلام اور سوشلزم دونوں کی توہین تھی۔ اس لیے کہ اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد تھے۔ معاف کیجیے گا ہم نے جب یہ کالم لکھنے کے بارے میں سوچا تھا تو ہمارا خیال تھا کہ ہم شاعری، فلم اور بین الاقوامی زندگی سے الفاظ کی توہین کی مثالیں بھی آپ کی خدمت میں پیش کریں گے مگر میاں نواز شریف 99 فی صد کالم کو نگل گئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنے نظریاتی، صاحب بصیرت اور انقلابی ہیں۔