ؓحضرت فاطمتہ الزہرہ

515

کلیم چغتائی
گزشتہ سے پیوسہ
عقیقہ کیا ، دو مینڈھے ذبح کیے اور نو مولود کے سر کے بال اتروا کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ فرمائی ۔ حضور ﷺ نے بچے کا نام ’’ حسن‘‘ رکھنے کی ہدایت فرمائی ۔ 4ھ میں رب العالمین نے سیدہ فاطمہ ؓ کو دوسرا بیٹا عطا فرمایا حضور ﷺ تشریف لائے ۔ بچے کے کانوں میں اذان دی پھر آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ ؓ کوبچے کا عقیقہ کرنے اور بچے کے بالوں کے ہم وزن چاندی خیرات کرنے کی ہدایت کی ۔ اس بچے کا نام حضور اکرم ﷺ نے ’’ حسین ‘‘ رکھا ۔
سرور عالم ﷺ اپنے ان دونوں نواسوں سے حد درجہ محبت فرماتے تھے ۔ حضرت حسن ؓ کو تقریباً آٹھ سال اور حضرت حسین ؓ کو تقریباً سات سال آنحضرت ﷺ کی خدمت میں رہنے اور آپ ﷺ سے تربیت پانے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ حضرت فاطمہ ؓ کی دیگر اولادوں میں حضرت زینب ؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ شامل ہیں ۔ سیرت نگاروں نے آپ ؓ کے ایک صاحبزادے حضرت محسن ؓ کا بھی ذکر کیا ہے جو کمسنی میں فوت ہو گئے تھے ۔



حضرت فاطمہ ؓ کی ذات امت مسلمہ کی خواتین کے لیے ایک روشن مثال اور کامل نمونے کی حیثیت رکھتی ہے ۔آپ ؓ نے اپنا گھر بھی سنبھالا ، شوہر اور بچوں کی پوری خدمت کی ، عبادت کا پورا پورا اہتمام فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تحریک میں بھی بھر پور حصہ لیا ۔ آپ ؓ غزوات میں شریک ہوتی تھیں ۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور مجاہدین اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں ۔ حضرت حسن ؓ کی ولادت ہوئی تو کچھ دنوں بعد اُحد کا معرکہ پیش آیا ۔ حضرت فاطمہ ؓ کا حال یہ تھا کہ شیر خوار بچے کو آغوش میں لیے میدان اُحد میں دوڑی آئی تھیں ۔ غزوۂ میں رسول پاک ﷺ زخمی ہو گئے تو ان کے چہرہ مبارک کا زخم سیدہ فاطمہ ؓ ہی نے دھویا اور مرہم پٹی کی تھی ۔ غزوۂ خندق کے موقع پر فاطمہ ؓ نے روٹی پکائی اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کی ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: آج تین دن بعد یہ لقمہ مجھے ملا ہے ۔



سیدہ فاطمہ ؓ بے حد کریم النفس اور رحم دل تھیں ۔ آپ ؓ کی ذات ، ایثار و قربانی کا دوسرا نام تھی ۔ ایک بار حضرت علی ؓ نے ساری رات ایک باغ کو سینچا۔ اجرت میں آپ ؓ کو تھوڑ سے جو حاصل ہوئے ۔ آپ ؓ جو لے کر گھر آئے ۔ حضرت فاطمہ ؓ نے ایک حصہ لے کر آٹا پیسا اور کھانا تیار کیا ۔ ابھی کھانا تیار ہوا تھا کہ کسی مسکین نے دستک دی اور سوال کیا ۔ سیدہ ؓ نے سارا کھانا دے دیا ۔ پھر بچے ہوئے اناج کا ایک حصہ لے کر پیسا اور کھانا پکایا ، ابھی یہ کھانا تیار ہوا ہی تھا کہ ایک یتیم نے دروازے پر آ کر ہاتھ پھیلادیا ۔ سیدہ ؓ نے یہ سارا کھانا اس کے حوالے کر دیا ۔ پھر آپ ؓ نے جتنا بھی اناج بچا تھا اسے پیس کر کھانا پکایا لیکن اسے کھانے کی نوبت نہ آئی تھی کہ ایک مشرک نے آکر کھانا مانگا ۔ آپ ؓ نے سارا کھانا اسے دے دیا ۔ آپ ؓ اور آپ ؓ کے اہل خانہ نے اس دن فاقہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات اتنی پسند آئی کہ اس گھرانے کے پاکیز نفوس کے بارے میں سورۃ الدھر کی یہ آیت نازل ہوئی ،( ترجمہ ):
’’ اور وہ اللہ کی راہ میں مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ ‘‘
سیدۃ النساء اہل الجنۃ حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ کے پڑوس میں ایک صاحب رہتے تھے جوپہلے یہودی تھے پھر اللہ کی ہدایت سے مسلمان ہو کر اصحاب رسول ﷺ میں شامل ہو گئے ۔ اس پر ان کے رشتے دار ان سے ناراض ہو گئے ۔ ان کا کاروبار تباہ ہو گیا اور وہ مفلسی کی زندگی بسر کرنے لگے ، اسی عالم میں ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ۔ ان کے رشتے داروں میں سے کوئی نہ آیا ۔ ایسے موقع پر یہ حضرت فاطمہ ؓ تھیں جوفوراًپہنچیں اور آپ ؓ نے میت کو غسل دیا اور کفن پہنایا ۔



ایک بار آپ ؓ چکی پیس رہی تھیں کہ پڑوس سے کراہنے کی آوازیں سنائی دیں ۔ آپ ؓ فوراً پڑوس میں پہنچیں ۔، معلوم ہوا کہ ایک خاتون دردِ زہ میں مبتلا ہیں اور ان کی جان خطرے میں ہے ۔ آپ ؓ نے گھر والوں کو تسلی دی اور ایک کنیز کے ساتھ مل کر ان خاتون کی اتنی اچھی طرح دیکھ بھال کی کہ بچہ صحیح سلامت پیدا ہو گیا اور زچہ بھی بالکل ٹھیک رہیں ۔

سندھ10ھ میں حضور ﷺ نے حجۃ الوداع فرمایا ۔اس مبارک سفر میں سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ بھی حضور ﷺ کے ساتھ تھیں ۔ 11ھ میں جدائی کی گھڑیاں آن پہنچیں ۔ آنحضرت ﷺ شدید علیل ہو گئے ۔ آخری ایام میں آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے ہاں مقیم تھے ۔ آپ ﷺ کی تیمار داری کے لیے حضرت فاطمہ ؓ آئیں تو حضور ﷺ نے بڑی محبت و شفقت سے پاس بٹھایا پھر ان کے کان میں آہستگی سے کوئی بات کہی جسے سن کو سیدہ ؓ رو پڑیں پھر حضور ﷺ نے کوئی بات ان کے کان میں فرمائی جسے سن کر سیدہ ؓ ہنسنے لگیں ۔ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے پوچھا، ‘‘ اے فاطمہ ؓ ، تمہارے ابا جان نے تم سے کیا کہا؟َ‘‘ سیدہ ؓ نے فرمایا’’ جو بات حضور ﷺ نے چھپا کر کہی ہے میں اسے ظاہرنہ کروں گی ۔ ‘‘



رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے اس واقعہ کی تفصیل دوبارہ دریافت فرمائی تو سیدہ فاطمہ ؓ نے بتایا ۔’’ پہلی بار حضور ﷺ نے مجھ سے کہا کہ حضرت جبرئیل ؑ سال میں میرے ساتھ ہمیشہ ایک بار قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے، اس سال خلافِ معمول دوبار دور کیا ہے۔
(جاری ہے)