ابو تمیم
جنگوں کی تباہ کاریاں فراموش کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جس شخص نے جسم کٹتے، لاشے بکھرتے، اَعضا زخمی ہوتے اور خاندان مٹتے دیکھے ہوں، وہ مرتے دم تک عام انسانوں کی طرح زندگی نہیں گزار سکتا۔ جو نسل آتش و آہن کی بارش، عمارتوں کو نیست و نابود اور آبادیوں کو کھنڈر میں تبدیل ہوتا دیکھ کر پروان چڑھے، اس کے لیے دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس کی زندہ مثالیں ہمیں کشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق، شام، یمن، لیبیا، صومالیہ، مالی، نائیجیریا، فلپائن کے جزیرے منڈاناؤ، میانمر کی ریاست راکھین اور مشرقی یوکرائن سمیت دنیا کے کئی ممالک اور خطوں میں نظر آتی ہیں۔ جنگوں اور ریاستی مظالم کے باعث ان ممالک کی صرف عمارتیں اور سڑکیں ہی تباہ نہیں ہوئیں، بلکہ معیشتوں کی چولیں بھی ہل چکی ہیں، جس کے باعث ہر طرف غربت، بے روزگاری اور محرومی کا راج ہے۔ ساتھ ہی جنگ زدہ علاقوں سے جان بچا کر نکلنا وہاں کے باشندوں کی ترجیح بن گیا ہے۔
ان بدترین حالات نے دنیا کو ایک نئے بحران سے دوچار کردیا ہے، جسے ’مہاجرت‘ یا ’ترکِ وطن‘ کہا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ بحران درحقیقت مشرقِ وسطیٰ، شمالی و وسطی افریقا اور وسطی و جنوب مشرقی ایشیا کے باشندوں کا ہے، تاہم اس نے مغرب یورپ اور امریکا سمیت پوری دنیا کی سیاست، معیشت اور سماج پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اس انسانی المیے کے باعث دنیا میں کئی طرح کی سماجی تقسیم بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ کہیں کوئی مہاجر دشمن ہے، تو کوئی مہاجر دوست۔ کسی کو اسلام کے پھیلاؤ کا خوف اور مسلمانوں سے چڑ ہوگئی ہے، تو کوئی مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ انہیں پناہ فراہم کرنے کی تحریک چلا رہا ہے۔ کوئی تارکین وطن کو اپنی معیشت پر بوجھ سمجھ رہا ہے، تو کوئی انہیں اپنی افرادی قوت کی کمی پوری کرنے کا بہترین ذریعہ تصور کر رہا ہے۔ تارکین وطن کے باعث سماج میں پیدا ہونے والی ان خلیجوں سے یورپ سب سے زیادہ متاثر دکھائی دیتا ہے، جس کی وجہ ان پناہ کے متلاشیوں کا مغربی یورپ کے ممالک کو ترجیح دینا ہے۔
اس بحران نے 2015ء میں اس وقت زور پکڑا، جب عراق اور شام کے لاکھوں مہاجراپنی سرزمینوں پر جنگوں اور ہمسایہ ممالک میں پناہ کا مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث سرحدوں کو روندتے ہوئے مغرب کی جانب چل پڑے۔ ہجرت کا یہ سفر زمین کے ساتھ سمندر میں بھی تیز ہوتا گیا۔ لاکھوں شامی اور عراقی تارکین وطن ترکی کی سرحد پار کرکے بلقان کی ریاستوں میں داخل ہوگئے، تاکہ جلد از جلد آسٹریا پہنچ سکیں، جو مغربی یورپ کا دروازہ سمجھا جاتا ہے۔
اس ہجوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہزاروں افغان، ایرانی، پاکستانی، بھارتی اور بنگلادیشی شہری بھی روزگار کی تلاش میں ان جنگ کے ماروں کے ساتھ ہولیے۔ دوسری جانب ربر اور لکڑی کی کمزور و شکستہ کشتیوں کے ذریعے ترکی کے مغربی ساحلوں سے بحیرۂ ایجیئن کے یونانی جزائر کی جانب ہجرت میں تیزی آگئی۔ ادھر انسانی اسمگلر بحیرۂ روم کے راستے کشتیاں بھر بھر کے تارکین وطن کو شمالی افریقا سے اٹلی پہنچانے لگے، جب کہ شمالی افریقا میں اسپین کے زیر قبضہ علاقے سبتہ پر تارکین وطن کے دھاووں میں بھی اضافہ ہوگیا۔
تارکین وطن کا یہ سیلاب یورپ کی جانب بڑھا، تو ایک طرف قومی سلامتی اور سرحدوں کے تقدس کا معاملہ کھڑا ہوگیا، جب کہ دوسری طرف بحیرۂ روم اور بحیرۂ ایجیئن میں مہاجرین کے ڈوبنے کے واقعات میں تیزی آگئی، جس کے باعث انسانی حقوق تنظیموں نے آسمان سر پر اُٹھالیا۔ اس ہنگامی صورت حال نے یورپی یونین کو اقدامات پر مجبور کردیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی چھتری تلے افغانستان سے مالی سے گولہ بارود برسانے والے ان ممالک نے ان بے گھر افراد کے مسئلے پر غور کے لیے پے در پے کئی اجلاس کیے۔ جرمنی نے آگے بڑھ کر بحران پر قابو پانے کی کوشش کی قیادت سنبھالی۔ یوں اتفاقِ رائے سے تارکین وطن کی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک کوٹا سسٹم کے تحت تقسیم، بحیرۂ روم میں انسانی اسمگلروں کو روکنے اور تارکین وطن کو بچانے کے لیے ’آپریشن صوفیہ‘ اور ترکی سے مہاجرین کی آمد کو روکنے اور انہیں واپس ترکی بھیجنے کے لیے انقرہ کے ساتھ معاہدہ جیسے اقدامات کیے گئے،تاہم یہ تینوں اقدامات پوری طرح کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے۔
اس کی وجہ یہ بنی کہ اسی عرسے میں مشرقی یورپ میں اسلام اور مسلمان مخالف سیاسی جماعتیں اقتدار میں آگئیں، جنہوں نے متحد ہوکر کوٹا سسٹم کو قبول اور مہاجرین کو پناہ فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ ان ممالک میں ہنگری، پولینڈ اور جمہوریہ چیک سرفہرست تھے۔ ’آپریشن صوفیہ‘ اس لیے ناکام تصور کیا جاتا ہے کہ انسانی اسمگلروں نے تارکین وطن کو یورپی ممالک پہنچانے کے بجائے لیبیا سے محض 10، 15میل کے فاصلے پر بحیرۂ روم میں بے یارومددگار چھوڑ کر خود فرار ہونا شروع کردیا۔ اس طرح یورپی سرحدی محافظ فوج ’فرونٹیکس‘ کو موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ انسانی اسمگلروں کی کشتیوں کو تباہ کرے، قبضے میں لے یا انہیں یورپی ساحلوں تک پہنچنے سے روکے۔ اس کے برعکس فرونٹیکس کے ساتھ ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ اور ’ایس او ایس میڈیٹرینین‘ سمیت کئی عالمی امدادی تنظیمیں بحیرۂ روم میں بھٹکتے ان تارکین وطن کو بچاکر خود یورپ لے جانے پر مجبور ہیں۔ اس اقدام سے یورپی ممالک کے مہاجر دشمن باشندے اور زیادہ برآنگیختہ ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ترکی اور یورپی یونین کا معاہدہ بھی آئے روز کے اختلافات کے باعث تعطل کا شکار نظرآتا ہے، کیوں کہ یورپی یونین وعدے کے مطابق ترکی کو مہاجرین کے لیے 3 ارب یورو کی امدادی درست انداز میں فراہم نہیں کررہا اور نہ ہی تُرک شہریوں کو بغیر ویزا سفر کی اجازت دے رہا ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر یونان میں پھنسےنصف عورتوں اور بچوں سمیت 62 ہزار پناہ کے متلاشیوں میں سے ڈیڑھ سال کے دوران صرف 916 کو واپس ترکی لایا گیا ہے، جب کہ ترکی سے 4211 پناہ گزینوں کو قانونی طور پر یورپی ممالک منتقل کیا گیا ہے۔ یوں یورپی یونین کے کچھ رکن ممالک کی ہٹ دھرمی اور اکثر کی عدم توجہی کے باعث یونانی جزائر پر موجود 62 ہزار، بلقان ریاستوں کی سرحدوں پر پھنسے 8300 اور اٹلی میں پناہ گزیں ایک لاکھ 56ہزار تارکین وطن کا مستقبل غیریقینی کا شکار ہے۔ ساتھ ہی بحیرۂ روم میں موت کا سفر اب بھی جاری ہے۔ اس سمندری راستے سے رواں برس مزید ایک لاکھ 17 ہزار 795 تارکین وطن غیرقانونی طور پر شمالی افریقا اور ترکی سے یورپ پہنچ چکے ہیں، جب کہ اس کوشش میں 2408 بحیرۂ روم میں جان کی بازی ہار چکے ہیں یا لاپتا ہیں۔
رواں سال یورپ پہنچنے والوں میں اکثریت ذیلی صحارا کے افریقی خطے سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ یہ لوگ قحط سالی، غربت اور بھوک سے تنگ آکر یورپ کی جانب ہجرت کر رہے ہیں۔ ان تارکین وطن میں سے کچھ بحیرۂ عرب کے راستے خلیجی ممالک پہنچنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، جن میں سے 70 رواں ہفتے یمن کے قریب ڈوب کر جاں بحق یا لاپتا ہوچکے ہیں۔ رواں ہفتے جاری کردہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020ء تک صرف قحط سالی کے باعث ذیلی صحارا کے6 کروڑ باشندے شمالی افریقا یا یورپ کی جانب ہجرت پر مجبور ہو ں گے، جب کہ اِس وقت جنگوں، تنازعات اور غربت کے باعث دنیا بھر میں ساڑھے 6 کروڑ افراد بے گھر ہیں، جن میں سے 2 کروڑ 13 لاکھ دیگر ممالک میں پناہ گزیں ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس وقت شام کے 52 لاکھ باشندے ہمسایہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جب کہ 65لاکھ اندرون ملک بے گھر ہیں۔ یہی حال کچھ عراق کا ہے، جہاں موصل آپریشن سے قبل جنگ کے باعث اندرون ملک بے گھر شہریوں کی تعداد 30 لاکھ تھی، جب کہ موصل آپریشن کے نتیجے میں مزید 6 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔
اس ساری صورت حال میں یورپ اور امریکا سمیت پوری عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف کارروائیوں کے لیے بڑے بڑے فوجی اتحاد تشکیل دیے جا رہے ہیں اور انسدادِ دہشت گردی کے نام پر بھاری رقوم مختص کی جا رہی ہیں، تاہم مہاجرت جو اس صدی کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر اُبھرا ہے، دنیا اسے جان بوجھ کر نظرانداز کر رہی ہے۔ عرب ممالک کو اسلحہ فروخت کرکے اپنی معیشتوں کو مضبوط کرنے والے مغربی ممالک خطے میں قیامِ امن کی کوشش کے بجائے جنگوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ اسی طرح افریقا سے قیمتی دھاتیں اور معدنیات نکال کر اپنی اقتصادی حیثیت کو مستحکم کرنے والی یورپی حکومتیں، اس پسماندہ براعظم سے خشک سالی، بے روزگاری اور غربت ختم کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کر رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہاجرت کا یہ بحران سنگین تر ہو کر المیے کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔