حبیب الرحمن
پختون خواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ایک مرتبہ پھر اسمبلی کے فلور پر پھٹ پڑے۔ ان کا اس طرح بار بار پھٹتے رہنا کوئی اچھنبا نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میری سوچ غلط ہو لیکن میں ان کے اندر کے درد کو سمجھتا ہوں۔ اگر سچ پوچھیں تو جس درد اور کرب کا وہ اظہارکرتے ہیں اگر وہ ہر پاکستانی اور ہر پارلیمنٹیرین کا ہوجائے تو پاکستان کی قسمت بدل کر رہ جائے گی۔ اختلاف کی گنجائش کہاں نہیں ہوتی۔اس لیے مجھ سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔
محمود خان اچکزئی پختون ہونے کی بنیاد پر یہ کہتے نظرآئیں کہ ’’جو فلاں فلاں سچائیوں کے باوجود بھی پاکستان زندہ باد کہتا ہے وہ بے غیرت ہے‘‘ یا پارلیمنٹ کے اس حد تک بااختیار ہونے کا کہیں کہ پاکستان کا ہر ادارہ بشمول ’’دفاع‘‘ اس کے تحت آجائے، کم از کم مجھے تو ان کی یہ باتیں اور یہ انداز کسی لحاظ سے بھی غلط نہیں لگتا۔ لہٰذا ان کا اسمبلی میں یہ کہنا کہ پارلیمنٹ کو جب تک مضبوط و مستحکم نہیں کیا جائے گا پاکستان پاکستان نہیں ہوسکتا، کیا یہ ایک دردمند پاکستانی کے دل کی آواز نہیں لگتی؟ اس آواز و انداز پر تنقید تو بنتی ہے ’’تنقیص‘‘ کسی صورت نہیں بن سکتی۔ اس کو ’’ناک پکڑنے‘‘ کا صحیح اور غلط انداز تو کہا جاسکتا ہے لیکن ناک پکڑنے کو کسی صورت غلط نہیں کہا جا سکتا۔
محمود اچکزئی غلط ہیں یا صحیح، لیکن وہ دنیا کے ہر فورم پر اسی انداز میں بولتے ہیں اور اسی لہجے میں بات کرنے کے عادی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں اسی لب و لہجے میں کیا کیا کہا وہ قارئین کی سوچ اور غور وفکر کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو پہل کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز رکھنی چاہیے‘‘۔ اس سوال پر کہ کیا انڈیا اپنے کنٹرول والا کشمیر چھوڑنے پر رضامند ہوجائے گا؟ انہوں نے برجستہ جواب دیا ’’نہ ہو لیکن ہم تو بچ جائیں گے۔‘‘ بی بی سی اردو کی انٹرویو سیریز وژن پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے، محمود خان اچکزئی نے کہا، ’’ہم کشمیر کے معاملے پر ایک نئی راہ کیوں نہیں اپناتے، اسے آزاد کر دیں، انڈیا بھی اور پاکستان بھی۔۔۔ کشمیر جھگڑے کی جڑ ہے۔ اسے حل کرنے کے لیے پہل ہم کیوں نہیں کرتے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ہم استصواب رائے پر مْصر ہیں، ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں، لوگ غریب مر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں سے حالات ٹھیک کرنا ہوں گے‘‘۔
ہم ان کے لہجے اور انداز کا تیکھا پن تو محسوس کر لیتے ہیں لیکن کیا ایسا نہیں ہوتا کہ بات افغانستان، ایران یا انڈیا کی ہو جب جب بھی پاکستان میں تخریب کاری ہوتی ہے ہم ان ممالک پر اور وہ پاکستان پر مداخلت کا الزام عائد کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں، ’’یہ انتہائی بیوقوفی ہوگی کہ ہم اپنے مخالف سے امید کریں کہ وہ مداخلت نہیں کرے گا۔ ہم سی پیک نہیں بنا سکیں گے اگر امن نہیں ہوگا۔ ہمیں افغانستان سے، ایران سے اور انڈیا سے امن قائم کرنا ہوگا۔‘‘ نیز یہ کہ ’’پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کا الزام ہے اور انہیں یقین ہے کہ افغانستان سے بھی پاکستان میں مداخلت ہو رہی ہے‘‘۔ یہاں لفظ ’’بھی‘‘ بہر لحاظ تنقید طلب ہے وہ بھی اس انداز میں جیسے یہ الفاظ کسی پاکستانی لیڈر کے بجائے افغان لیڈر کے ہوں، لیکن اس قسم کی غلط فہمی یک طرفہ نہیں۔ اگر افغانستان میں کوئی تخریب کاری ہوتی ہے تو وہ بلا تامل پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے اور اگر پاکستان میں کوئی تخریب کاری ہوتی ہے تو پاکستان بھی اسی قسم کی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ یہی رویہ ایران کا پاکستان کے ساتھ اور پاکستان کا ایران کے ساتھ، بھارت کا پاکستان کے ساتھ اور پاکستان کا بھارت کے ساتھ ہوتا ہے جو خطے کے لیے کسی صورت بھی اچھا نہیں اور کسی وقت بھی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔
’’ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ’’افغانستان میں سوویت فوجیں آئیں تو دنیا کے لیے مسئلہ پیدا ہوا اس کے لیے یہ سب کچھ بنا۔ اب ہمیں توبہ کرنی ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں ’’امریکا اور جہاد کے حامیوں کی مدد سے یہاں لاکھوں غیرملکیوں کو تربیت دی گئی۔ میرا خیال ہے کہ امریکا اور ہمارے ملک کے کرتا دھرتا یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے کس کس کو تربیت دی ہے، بس اب ان سے چھٹکارا حاصل کرلیں، ختم کر دیں۔ ختم نہیں کریں گے تو اس خطے کو آگ لگے گی۔‘‘ اور کیا یہ بات بھی خلاف عقل ہے، ’’ افغانستان کی خودمختاری کا احترام کیا جائے، ورنہ بربادی ہو سکتی ہے۔ توبہ کرلیں، ہماری اسٹیبلشمنٹ پیچھے چلی جائے، الیکشن میں مداخلت نہ کریں، سیف ہاؤسز کے تماشے بند کردیں، لوگوں پر اعتماد کریں، جو جیت کر آتا ہے اس پر اعتماد کریں۔‘‘
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’پاکستان کا ایک مضبوط وفد افغانستان جا رہا تھا، تو اس وقت احسان اللہ احسان کو ٹی وی پر کیوں بٹھا دیا گیا؟ کیا پیغام دینا چاہتے تھے ہم اس وقت؟‘‘۔
کیا ایسے موقعے پر جب پاکستان کا ایک وفد مذاکرات کے لیے جا رہا ہو، احسان اللہ احسان کا ٹی وی پر اپنے آپ کو حکام کے حوالے کرتے ہوئے افغانستان کے متعلق یہ کہنا کہ پاکستان میں ہر تخریب کاری کا منصوبہ افغان سرزمین پر بنایا جاتا ہے، کسی اچھے نتائج کا حامل بن سکتا تھا؟
بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’’بدقسمتی ہے کہ ہم یہاں لیڈر ایجاد کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کا واحد علاج یہ ہے کہ یہاں ہر ادارہ اپنی حدود میں رہے اور آئینی طور پر آزاد ہو۔ فوج اپنے دائرے میں ہو، صحافی اپنے دائرے میں ہوں، سیاست اپنے دائرے میں اور دوسرے ادارے اپنے دائرے میں۔‘‘ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا، وہ چاہتے ہیں کہ ’’پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو، اور پاکستان کی تمام داخلی اور خارجی پالیسیاں قومی اسمبلی میں جنم لیں۔ جو یہ کرتا ہے وہ پاکستان کا دوست ہے اور جو نہیں کرتا وہ پاکستان کی بربادی کا ذمے دار ہے‘‘۔
جہاں تک ’’لیڈر ایجاد‘‘ کرنے کا معاملہ ہے یہ بھی حقیقت سے بہت دور نہیں۔ محمد خان جونیجو اور خود میاں نواز شریف اس کی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔ جنرل پاشا کی صورت میں عمران خان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور کراچی میں جماعت اسلامی کو ختم کرنے کے لیے ’’بانی ایم کیو ایم‘‘ کو بھی کس طرح فراموش کیا جاسکتا۔ اور جب اپنے ہی ایجاد کردہ لیڈر عوامی مقبولیت اختیار کرلیتے ہیں تو کسی نہ کسی عمل کو جواز بناکر ان کو راستے سے ہٹادیا جاتا ہے۔
محمود خان اچکزئی کے مطابق تمام دنیا اس بات پر متفق ہے کہ دنیا میں حکمرانی کا بہترین نظام جمہوریت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو چلانے کا طریقہ کار ہوتا ہے، ملک کو چلانے کے لیے آئین ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں آئین کی تاریخ بہت بری رہی ہے، لمبے عرصے تک بننے ہی نہیں دیا گیا۔ آخر بنا تو اس کو بار بار توڑا گیا۔ آئین کی پاس داری ہر شخص پر لازم ہے، چاہے وہ وردی پوش ہو، چاہے وہ ملا، چاہے وہ پیر ہے، فقیر ہے، چاہے اس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے یا بندوق آئین سب کے لیے لازمی طور پر محترم ہونا چاہیے‘‘۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کے ملک کے بارے میں وژن پر بات کرتے ہوئے، محمد خان اچکزئی نے کہا 11 اگست 1947 کی ان کی تقریر بڑی واضح ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اب ہمیں ماضی کو بھول جانا چاہیے، ہمیں ہر انسان کے عقیدے کا احترام کرنا ہوگا۔ ہر شخص جو پاکستان کا شہری ہے وہ قانون کی نظر میں برابر ہے۔ ’’پاکستان کو چلانے اور اس کو اچھا مقام دلانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ایک شفاف وفاقی جمہوریت ہو‘‘۔
بلوچستان میں جاری حکومت مخالف عسکریت پسند تحریک پر بات کرتے ہوئے، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ بلوچ اور پشتون بہت غریب لوگ ہیں۔ صوبے کے وسائل بہت زیادہ ہیں مگر انہیں گیس تک نہیں دی گئی۔ انہوں نے ان علاقوں کی ترقی کے لیے اپنی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ’’ کون اپنے آپ کو لٹنے کے لیے چھوڑے گا؟ وہ کیا آپ کو اپنے خزانے لینے دیں گے۔ آج یہ اعلان کریں کہ جن کے جو وسائل ہیں ان پر مقامی لوگوں کا حق ہے، تو ساری مزاحمت ختم ہوجائے گی۔ اس طرح جنہوں نے ملک چلایا، وہ تباہ ہوگئے‘‘۔
بے شک محمود خان اچکزئی کی ساری باتوں سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کے لب و لہجے، انداز بیان اور تیر و نشتر کی طرح برستے ہوئے لفظوں کو ایک جانب رکھ کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچا جائے تو ان کی باتیں ’’خدا لگتی‘‘ لگتی ہیں۔ ہم جس انداز سے پاکستان کو چلتا دیکھ رہے ہیں اس میں کہیں نہ کہیں کمی کوتاہی ضرور ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم دنیا کے ترقیاتی ملکوں کی صفوں میں شامل ہوتے اور نہ جانے کتنے ممالک ہماری پیروی کر رہے ہوتے۔