مودی سرکار کا جنگی جنون اور پڑوسیوں سے بڑھتے تنازعات ، بھارتی تابوت میں آخری کیل

487

سمیع اللہ ملک
جب سے امریکانے اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت بھارت کوگودلیاہے ،متعصب مودی کاظالم بھارت عصرحاضرکاواحدملک بن گیاہے جواپنے تمام ہمسایہ ممالک کے لیے وبالِ جان بناہواہے اوراپنے اس ’امتیازی وصف‘ کے نتیجے میں شدیدترین ردّعمل کاسامناکررہاہے۔پاکستان بھارت کاہمسایہ ملک ہے جسے بھارت کی مسلسل دہشت گردی اورپراکسی وارکا سامناہے۔ مودی نے کنٹرول لائن پرایسا ادھم مچارکھاہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کوبھارتی سفارتی نمائندے کودن میں دوبارطلب کرکے اس کی جارحانہ ،غیرانسانی اورغیرقانونی حرکات پر باقاعدہ احتجاجی مراسلے ان کے حوالے کرنا پڑے۔
نیپال کے ساتھ بھارت کے عرصۂ درازسے اچھے تعلقات رہے مگرجس طرح بچھوبدخصلتی کے باعث ڈنک مارنے سے نہیں رہ سکتا،اسی طرح ان دنوں بھارت سرکارکی نیپال کے ساتھ بھی کشیدگی کی خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ چین اوربھارت کے مابین بڑھتے اختلافات بھارت کے لیے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں۔چین کے صنعتی اورکاروباری اداوں کی جانب سے نیپال میں سرمایہ کاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ یہ سرمایہ کاری پانی وبجلی،ہوابازی،معدنیات اورطب سمیت مختلف شعبوں میں کی گئی ہے۔چین کی بین الاقوامی تجارت کے فروغ کی کونسل اورچین میں نیپالی سفارت خانے کے زیراہتمام نیپال میں سرمایہ کاری کی گول میزکانفرنس میں بتایاگیاتھاکہ حالیہ برسوں میں چینی صنعتی اور کاروباری اداروں کی جانب سے نیپال میں سرمایہ کاری اورتعاون کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوتاجارہاہے اوریہ عمل مستقبل کے نیپال پربھارتی اثر کو زائل کرنے کا باعث ثابت ہوگاکیونکہ چین نیپال میں اپنی سرمایہ کاری کومحفوظ رکھنے کے لیے کسی بھی راست اقدام کاحق محفوظ رکھتاہے۔



چین کی بین الاقوامی تجارت کے فروغ کے سربراہ جیانگ ژنگ کے مطابق چینی صنعتی اورکاروباری اداروں کی جانب سے نیپال میں براہِ راست سرمایہ کاری کی مالیت 35کروڑ 50 لاکھ ڈالرہے جس میں 30 سے زائدچینی صنعتی اورکاروباری اداروں نے بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری کی ہے۔ چین کی نیپال میں سرمایہ کاری سے نہ صرف نیپال میںجہاں اقتصادی تنوع اورصنعت کاری میں ترقی ہوگی وہاں چینی کاروباری اداروں کوفروغ ملنے کے ساتھ نیپال کی خودمختاری کے اعتمادکوبھی نئی جہت نصیب ہوگی۔ نیپال کے ذمے دارسرکاری حلقوں کے مطابق اس وقت چین نیپال میں براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری کے لحاظ سے سب سے بڑاملک اورتجارت کادوسرابڑاساتھی ہے۔ نیپالی حکومت چینی صنعتی اورکاروباری اداروں کی بنیادی تنصیبات،بجلی،معدنیات ،پیٹرولیم،جدیدزراعت،سیاحت سمیت اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کاخیرمقدم کرتی ہے۔نیپال میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری پراب بھارتی رہنماؤں کوگزشتہ چندبرسوں میں نیپال پرکی گئی عائدپابندیوں کے ثمرات ملناشروع ہوگئے ہیںجس پربھارتی رہنماؤں میں شدیدتشویش پیداہوچکی ہے۔معاملہ اس قدرآگے بڑھ چکاہے کہ گیم بھارت کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔



بھارتی رہنماؤں کے مطابق حکومت نے نیپال سے تعلقات بگاڑکراپنے مسائل میں گوناگوں اضافہ کرلیاہے۔چین کے صدرنیپال کے وزیراعظم پشپاکمال ربال سے ملاقات کر چکے ہیں۔ملاقات میں دونوں ممالک کے سربراہوں نے ون بیلٹ اینڈروڈمنصوبے میں توسیع پرمکمل اتفاق کرتے ہوئے باہم اشتراک سے کام کرنے کااعادہ کیا۔واشنگٹن میں قائم ووڈ روویلسن سینٹرفاراسکالرزسے منسلک ایک ماہرجنوبی ایشیامیشائل کوگلمن کاکہناہے کہ چندبرس پہلے تک نیپال کے ساتھ تعلقات کی بحالی بھارتی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی ،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نیپال برسوں سے غیرمستحکم اورمختلف نوعیتوں کے تنازعات کاشکاررہاہے۔ بھارت کے مقابلے میں چین نے اپنی سرمایہ کاری میں غیرمعمولی تیزی لاتے ہوئے نیپال میں اپنی اقتصادی سرگرمیوں میں بہت زیادہ اضافہ کردیاہے۔بیجنگ نے نیپال میں پاورپلانٹس،ہائی ویز،ہوائی اڈوں اورٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔
جنوبی ایشیائی سیاست پرگہری نظررکھنے والے ایک اورماہرکانگولی کے بقول نیپال میں چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اثرورسوخ پربھارتی سیاستدانوں کوتشویش ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بھارتی اثررسوخ کوواضح نقصان پہنچاہے۔ تاریخ پرنظررکھنے والے دانشورجانتے ہیں کہ سری لنکامیں ایک عرصے تک خانہ جنگی جاری رہی اورآج کاسری لنکا 30 سال پہلے کے سری لنکاسے بالکل مختلف اوربھارتی غلبے سے پاک ہے۔ بھوٹان کے علاوہ بھارت کے تمام ہمسایوں نے ایک کانفرنس میں حصہ لیاتھا۔ جس کے شرکا میں سری لنکا،میانمر،بنگلا دیش،مالدیپ اورنیپال شامل ہیں۔ اس کانفرنس میں شرکت سے پہلے بھارت نے اپنے ہمسایوں کوخبردارکیاتھاکہ چین کے ساتھ ساجھے داری کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی لیکن ان میں سے کسی نے بھی بھارت کی بات پرکان نہیں دھرے۔یہاں پریہ سوال پیداہوتاہے کہ خطے کاسب سے بڑاملک ہونے اورچھوٹے ممالک میں خاطرخواہ اثررسوخ رکھنے کے باوجودیہ ممالک بھارت کی بات ماننے پرپررضامندکیوں نہیں ہوئے؟بھارت کے تمام ہمسائے بھارت کوناپسندکرتے ہیںاوراسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
چین نیپال تعلقات میں قربت کی ایک بڑی وجہ بھارت کی اپنی ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاندانہ پالیسیاں ہیں۔بالخصوص چین بھارت حالیہ تنازع بہت اہم اورسنگین نوعیت کاہے۔ حالانکہ اس وقت جس رقبے پربھارتی قبضہ ہے اورجوتنازع کی بنیادبناہواہے وہ چندکلومیٹربھی نہیں۔ تنازع یہ ہے کہ بھوٹان اوربھارتی ریاست سکم کے درمیان چین کاایک مختصر ساقطعہ زمین ہے۔نقشے پرسرسری نظرڈالیںتواس کی کچھ اہمیت سمجھ میں نہیں آتی لیکن اس کی اہمیت کااس وقت اندازہ ہوتاہے جب اس کے نیچے بھارت کے نقشے کوغورسے دیکھیں۔ یہاں چینی سرحدسے ملحق ایک تنگ راہداری بھارتی علاقے کی ہے جومشکل سے چندمیل چوڑی ہے۔اس راہداری کے نیچے بنگلا دیش شروع ہوجاتاہے۔یہ راہداری سلیکوری کوریڈور کہلاتی ہے اوریہ شمالی مشرقی بھارت سے ملانے والاواحدزمینی رقبہ ہے۔ شمالی مشرقی بھارت اروناچل پردیش۔آسام میگھالے وغیرہ 7 ریاستوں پرمشتمل ہے۔ ان میں سے آسام وہ ریاست ہے جہاں بھارت سے علاحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔یہ پورا کوریڈور کاٹ دیاجائے توبھارت کاان 7 ریاستوںسے رابطہ کٹ جائے گا۔چین نے بھوٹان اورسکم کے درمیان واقع اپنے مذکورہ علاقے میں سڑک کی تعمیرشروع کررکھی ہے جوچین بھارت سرحدتک آئے گی۔ گزشتہ ماہ جون میں بھارتی فوج نے چینی علاقے میں داخل ہوکرسڑک کی تعمیرروک دی اورعلاقے پرقبضہ کرلیااوروہاں سے چینی فوج کونکال دیا۔
بھارت کواندیشہ یاخدشہ ہی نہیں پورایقین ہے کہ آئندہ کسی بھی کشیدگی کی صورت میں چین اس سڑک کے ذریعے سے مذکورہ کوریڈور پرگولہ باری کرکے یہ راستہ بندکردے گاجس میں سے بھارت کی ایک اہم مرکزی ریلوے لائن اورایک سڑک گزرتی ہے۔ بھارت اس راستے کوچوزے کی گردن کانام بھی دیتاہے یعنی چین کوحملہ بھی نہیں کرناہوگابس گولہ باری کرے گا (جیساکہ خود بھارت کنٹرول لائن سے مسلسل کرتارہتاہے) اور چوزے کی گردن کاٹ دے گا۔ چین بارباراپناعلاقہ خالی کرنے کی وارننگ دے رہاہے لیکن بھارت کان نہیں دھررہا۔



بھارت کے پاس ایک بہت بڑاکارڈ تبت ہے جسے استعمال کرکے وہ چین کوپریشان کرسکتاہے لیکن وہ یہ کارڈبھی استعمال نہیں کرے گاکیونکہ اس کے ردّعمل میں چین ایک نہیں ، دو دو کارڈ (کشمیراورآسام) استعمال کرے گااوربھارت کومزیدپریشانی کاسامنارہے گا۔ بھوٹان سے ملحقہ اس علاقے کو ’ڈوکلام‘کی سطح مرتفع کہاجاتاہے۔چین سڑک کی تعمیرپرتلاہواہے اوربھارت اسے روکنے کے لیے ڈٹاہوا ہے۔ معاملہ تشویشناک ہے جومزیدتشویشناک ہوسکتاہے، تشویش سے بڑھ کرخطرے کی حدمیں داخل ہوسکتاہے لیکن بھارت کی اپنے ہمسایوں سے چھیڑ چھاڑ کا ایک بڑاخطرہ عرصے سے کنٹرول لائن پرمنڈلارہا ہے۔ پاکستان نے اب تک کمال ضبط وتحمل کامظاہرہ کیاہے، تاہم اگر بھارتی حرکتیں اور سازشیں ایسے ہی جاری رہیں تو وہ وقت بہت جلدآ سکتا ہے کہ بھارت کوسبق سکھانے کے لیے فیصلہ کن اقدام کیا جائے۔



کنٹرول لائن پربھارت کی قابض فوجوں کی جانب سے سرحدی اورجنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی اب معمول بن چکی ہے نیزاب بھارتی درندوں نے مقبوضہ اورآزادکشمیرمیں معصوم شہریوں اورآبادی کونشانہ بنانا بھی معمول بنالیاہے۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اشتعال انگیزیاں روکی جا رہی ہیں اور نہ ہی بھارت تعاون پرآمادہ ہے۔ چندہفتے قبل آزادکشمیرمیں اقوام متحدہ کے مبصرین سرحدی علاقے کادورہ کررہے تھے۔ان کی گاڑی پراقوام متحدہ کا جھنڈابھی نصب تھامگربھارتی فوج نے انہیں براہِ راست نشانہ بنایا۔خوش قسمتی سے مبصرین بحافظت وہاں سے نکل آئے ،اس واقعے سے معلوم ہوتاہے کہ بھارت عالمی اداروں کو کشمیرکے تنازع میں کسی طرح کرداردینے کے خلاف ہے اوروہ عالمی مینڈیٹ کے حامل اداروں کے اسٹاف کونشانہ بنانے سے گریزنہیں کرتا۔ بھارت بری طرح سے جنگی جنون میں مبتلا ہو چکا ہے۔ تازہ اعدادوشمارکے مطابق بھارت ، امریکا ،اسرائیل اوریورپ سے اسلحہ وجنگی ٹیکنالوجی خریدنے والے بڑے ممالک میں شامل ہوچکاہے۔
دنیاکاکوئی بھی ملک اپنے علاقوں میں ایسی خطرناک صورتحال پیدانہیں کرتا لیکن بھارت کے متعصب حکمران جنگی جنون میں مبتلا ایسا کھیل کھیل رہے ہیں جوسارے ملک کونیست ونابود کرسکتاہے ۔ بھارت چین کے ساتھ بھی سرحدی چھیڑچھاڑ میں مصروف ہے۔ کیا بھارت بیک وقت کئی ممالک کے ساتھ جنگ چاہتا ہے؟ کیابھارتی حکمران امریکا یا اسرائیل کے کہنے میں آ کر اپنے ملک کو اپنے ہاتھوں برباد کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟