محمد احمد ذیشان
فلسطین میں مقامی مسلمانوں کے خلاف غاصب صہیونیوں کی ظالمانہ کارروائیاں 7 دہائیوں سے جاری ہیں۔ اس دوران مقبوضہ فلسطین کی زمین پر 3 بڑی کثیر ملکی جنگیں اور 3 تحریک انتفاضہ بھی پیش آ چکی ہیں۔ اس دوران ہزاروں فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں۔
قابض اسرائیلی حکومت نے ایک طرف فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھروں سے جلاوطن کرکے دربدر کردیا ہے، تو دوسری طرف ناکا بندیوں اور معاشی پابندیوں سمیت مختلف ہتھکنڈوں سے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ ان مظالم کے جواب میں فلسطینی مسلمانوں نے اپنی مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان مزاحمتی کارروائیوں میں بھی اب تک ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں سے ڈھائی سو کے قریب شہدا کی لاشیں آج بھی اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہیں۔
نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کوشاں تنظیموں کا کہنا ہے کہ اندازوں کے مطابق کم از کم 249 فلسطینیوں کی لاشیں اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہیں، جنہیں مختلف فوجی علاقوں کے مخصوص قبرستانوں میں دفن کیا گیا ہے، جب کہ تل ابیب سرد خانوں میں بھی 9 فلسطینی شہدا کی لاشیں محفوظ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان قبروں پر ناموں کی تختیوں کے بجائے نمبر لگے ہوئے ہیں اور ان میں سے کچھ لاشیں تو 1967ء کی جنگ کے وقت سے وہاں موجود ہیں۔ ان لاشوں میں 7 مارچ 2002ء کو دوسری انتفاضہ کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے میں اریئیل نامی غیرقانونی یہودی بستی کے دروازے پر فدائی بم حملہ کرکے 15 اسرائیلیوں کو زخمی کرنے والے نوجوان شادی محمد نصار کی لاش بھی شامل ہے۔
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ایسی وڈیو پھیلی ہے، جس میں مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی فوج نے ایک فلسطینی نوجوان کی لاش کو اسپتال سے نکال کر فوجیوں کی موجودگی میں دفن کیا ہے۔ اس وڈیو کے منظر عام پر آتے ہی فلسطینی قوم میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسرائیلی فوج کی اس حرکت نے عرصے سے اپنے شہید و لاپتا بیٹوں کے منتظر فلسطینی خاندانوں کو غم زدہ کر دیا ہے، جو اپنے پیاروں کی لاشیں حاصل کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے انتظار کر رہے ہیں۔
ان گم شدہ لاشوں کی مخصوص قبرستانوں میں موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل ان لاشوں کو مذاکرات میں بہ طور حربہ استعمال کرنے کے لیے محفوظ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ 2012ء میں فلسطینی حکومت سے امن مذاکرات بحال کرنے کے لیے اسرائیل نے 90 فلسطینیوں کی لاشیں حوالے کی تھیں۔ اسی طرح 2013ء اور 2014ء کے درمیان قریب 27 لاشیں اہل خانہ کے حوالے کی گئیں۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فوج کا لاشیں غائب کرنے کا یہ ظالمانہ اقدام اسرائیل کے قانون اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جنیوا کنونشن کے مطابق کسی بھی مسلح تنازع کے فریقین کو مارے جانے والے افراد کو احترام کے ساتھ دفن کرنا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو اس کے مذہب کے مطابق اس کی آخری رسومات ادا کی جانی چاہییں۔
رواں سال 25 جولائی کو اسرائیلی عدالت عظمیٰ نے ایک حکم جاری کیا تھا، جس میں اسرائیلی فوج کو لاشیں غائب کرنے سے روکا گیا تھا۔ اسی طرح اقوام متحدہ نے بھی اسرائیلی فوج کے اس ظالمانہ اقدام کی شدید مذمت کی تھی۔
فلسطینیوں نے اسرائیل کو غائب شدہ لاشوں کی حوالگی پر مجبور کرنے کے لیے بیت المقدس کے امداد اور انسانی حقوق کے قانونی مرکز (جے ایل اے سی) کے تحت ایک قومی مہم چلا رہی ہے۔ اس مہم کے تحت مرکز لاپتا شخص کے خاندان یا سیاسی تنظیموں کے ذریعے اس کی گمشدگی کی اطلاع پاتا ہے، اور پھر اس کی بازیابی کے لیے کوشش کرتا ہے۔
اس مرکز نے 2010ء میں اسرائیلی فوج کی حراست میں شہید ہونے والے مشہور العاروری کی لاش 34 سال بعد حاصل کی تھی، جب کہ 2011ء میں 35 سال کے بعد حافظ ابو زنط کی لاش حاصل کی۔ تاہم اس وقت بھی ڈھائی سو کے قریب فلسطینی شہدا کی لاشیں اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہیں، جن کی بازیابی کے لیے یہ مرکز بہت زیادہ سرگرم ہے۔