کپتان کا کیا بنے گا؟

329

zc_MFمیاں نواز شریف تو نا اہل ہوگئے جان چھوٹی لیکن اب یہ سنسنی پھیلی ہوئی ہے کہ کپتان کی بھی خیر نہیں ہے نا اہلی کی تلوار اس کے سر پر بھی لٹک رہی ہے۔ اس کے خلاف ایک نہیں کئی مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں الیکشن کمیشن بھی اس کے خلاف ادھار کھائے بیٹھا ہے، پھر عائشہ گلا لئی کی صورت میں ایک اور بلائے ناگہانی اس پر نازل ہوگئی ہے۔ خواتین کے حوالے سے کپتان کی شہرت پہلے بھی کچھ اچھی نہیں ہے کہ ’’ایں گل دیگر شگفت‘‘ گلالئی اسکینڈل کی صورت میں اس کے خلاف ایک نیا محاذ کھل گیا ہے جس میں بظاہر اس کا دفاع بہت کمزور نظر آرہا ہے کپتان بجا طور پر یہ کہہ سکتا ہے۔
’’اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا‘‘
منیر ببھی نیازی تھے اور کپتان بھی نیازی ہیں لگتا ہے منیر نیازی نے اپنے نیازی بھائی کے لیے ہی یہ شعر کہا تھا لیکن کپتان نیازی کو ایک نہیں کئی دریاؤں کا سامنا ہے کیا وہ ان دریاؤں کو عبور کر پائے گا؟ اس میں شک نہیں کہ کپتان نے سیاست میں اپنا خواب پورا کرنے کے لیے بڑی محنت کی ہے پاکستان کا وزیراعظم بننا اس کا خواب ہے جو وہ بیس بائیس سال سے اپنی آنکھوں میں سمائے ہوئے ہے۔ وہ سمجھتا ہے اور شاید اس کے حاشیہ برادروں نے بھی اسے یقین دلا رکھا ہے کہ وہ وزیراعظم بن گیا تو پاکستان کے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔ کرپشن اچانک ختم ہوجائے گی جن لوگوں نے ملک کی دولت لوٹی ہے وہ ساری دولت لاکر قومی خزانے میں جمع کرادیں گے اور ملک معاشی طور پر خود کفیل ہوجائے گا۔ غربت مٹ جائے گی امن و امان اور عدل و انصاف ایسا ہوگا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پئیں گے۔ ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا ہر قسم کی جعلسازی، دھوکا دہی اور اقربا پروری کا ملک سے خاتمہ ہوجائے گا اور ہر طرف میرٹ کی بالادستی ہوگی۔ اس طرح وہ نیا نکور پاکستان وجود میں آجائے گا جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر کپتان کے مقدر میں تھی۔



سچ تو یہ ہے کہ کپتان 2013ء کے انتخابات کے بعد ہی وزیراعظم بننے کی توقع لگائے بیٹھا تھا۔ اسے باور کرایا گیا تھا کہ ان انتخابات میں اس کی پارٹی کلین سوئپ کرے گی پھر اقتدار اس کے قدموں میں ہوگا لیکن نتیجہ اس کی توقعات اور اسے کرائی گئی یقین دہانیوں کے برعکس نکلا۔ میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی زیادہ بارسوخ ثابت ہوئی۔ وہ جیت گئی اور میاں نواز شریف وزیراعظم بن گئے لیکن کپتان نے ن لیگ کی حکومت کو تسلیم نہ کیا۔ اس نے دھاندلی دھاندلی کا وہ شور مچایا کہ زمین و آسمان ہل گئے۔ آخر حکومت کو دھاندلی کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کرنا پڑا کپتان کی پارٹی بڑے دعوے کے ساتھ عدالتی کمیشن میں پیش ہوئی لیکن دھاندلی کا کوئی ٹھوس ثبوت کمیشن میں نہ پیش کرسکی حتیٰ کہ جن پینتیس پنکچروں کا بڑا واویلا تھا وہ بھی ہوا میں اڑ گئے۔ چنانچہ عدالتی کمیشن نے جو فیصلہ دیا اس کا لب لباب یہ تھا کہ انتخابات میں جزوی طور پر دھاندلی اور بے ضابطگی ضرور ہوئی ہے لیکن پورے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار نہیں دیا جاسکتا اس لیے انہیں کالعدم قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے اس عدالتی فیصلے کے بعد بھی کپتان مایوس نہیں ہوا اس نے پارلیمنٹ میں جانے کے بجائے پارلیمنٹ سے باہر حکومت گرانے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کردی۔ دھرنے پہ دھرنا چلتا رہا۔ کپتان کے سیاسی کزن علامہ طاہر القادری نے بھی دھرنے کو کندھا دینے کی کوشش کی لیکن جب کندھے دکھنے لگے تو مایوس ہوکر کینیڈا واپس چلے گئے لیکن کپتان نے ہمت نہ ہاری وہ ڈٹا رہا۔ مسئلہ صرف اتنا تھا کہ حکومت کسی طرح رخصت ہو نواز شریف وزیراعظم ہاؤس خالی کردیں اور کوئی نادیدہ قوت کپتان کا ہاتھ پکڑ کر اسے وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دے۔



جب کپتان کی بے چینی حد سے بڑھ گئی تو قدرت کو بھی اس پر رحم آگیا اور اس نے آسمان سے پاناما لیکس نازل کرکے میاں نواز شریف کو اقتدار سے بیدخل کرنے کا سنہری موقع فراہم کردیا۔ میاں صاحب کی نا اہلی میں بلاشبہ کپتان کی دھما چوکڑی کا بڑا دخل ہے اور وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ
کودا تیرے آنگن میں کوئی دھم سے نہ ہوگا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہوگا
کپتان نے واقعی ایوان اقتدار کے آنگن میں کود کر میاں نواز شریف کو باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے اب وہ لاکھ چیخ و پکار کریں ان کا واویلا بیکار ہے۔ لیکن قدرت کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اس نے کپتان کو وزارت عظمیٰ طشتری میں رکھ کر پیش کرنے کی بجائے اسے بھی احتساب اور انصاف کے ترازو میں تولنا شروع کردیا ہے کہا جارہا ہے کہ عدالت عظمیٰ لندن فلیٹ اور بنی گالا اسٹیٹ کے بارے میں اس کی منی ٹریل سے مطمئن نہیں ہے۔ اگر بالغرض یہ ایشو کلیئر ہوجاتا ہے تو الیکشن کمیشن توہین عدالت کیس میں اس کی گوشمالی کے لیے تیار ہے۔ اگر یہاں معافی تلافی سے بات ٹل جائے تو عائشہ گلالئی کو کون منائے گا جس کے پیچھے مسلم لیگ ن بھی تن کر کھڑی ہے اور کپتان کو اس کے انجام تک پہنچانا چاہتی ہے۔



بہر کیف کپتان کا انجام بھی بخیر نظر نہیں آتا۔ ن لیگ والے اسے جیسی کرنی ویسی بھرنی قرار دے رہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ کپتان بھی نا اہل ہوگیا تو نیا پاکستان کیسے بنے گا اور قائداعظم کا خواب کون پورا کرے گا۔