انعم مظفر
کرپشن کو اردو میں بدعنوانی کہتے ہیں لیکن شاطروں نے اردو سے اس کو انگریزی میں منتقل کرا دیا تاکہ اس کی کراہت اور ناپسندیدگی کو کم کیا جا سکے یادش بخیر پچیس تیس سال پہلے تک لفظ بد عنوانی ہی مستعمل تھا اور جو شخص اس میں ملوث پایا جاتا اس کو بدعنوان افسر کا لقب دیا جاتا جس سے وہ معاشرے میں نکو بن جاتا تھا۔
کرپشن ایسی سہانی ملکہ ہے اس کے وجود سے تو کوئی انکار نہیں کرتا مگر اس کی عدم موجودگی کو بھی کوئی گوارا کرنے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی اس کا ذکر تو کرتا ہے مگر کراہیت کا اظہار نہیں کرتا یعنی یہ ایک فیشن کی طرح ہمارے معاشرے، سماج اور دفتروں میں داخل ہو چکی ہے، اب لوگ اس حد تک اس کے عادی ہو چکے ہیں کہ اگر کہیں یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں منصوبہ بیس کروڑ میں مکمل ہونا تھا مگر اس کے اختتام تک اس پر لاگت چالیس کروڑ روپے تک پہنچ گئی تو لوگ کہتے ہیں خیر ہے منصوبہ تو مکمل ہو گیا یعنی ان کو منصوبے کی تکمیل ہی غنیمت معلوم ہوتی ہے، باقی خیر ہے!! ہر پاکستانی اس ملکہ کرپشن کے کرتوتوں سے سخت نالاں نظر آتا ہے مگر اس کے کھلاڑیوں جیالوں اور متوالوں کو ہی ووٹ دینے پر مجبور ہے لیکن اس کو راہی عدم کرنے کی نہ کسی میں صلاحیت ہے اور نہ کوئی منصوبہ بندی۔ اس بدعنوانی پر بدعنوانی کا نام سابق ڈکٹیٹر نے پلی بارگین رکھا یعنی کرپشن کی بیٹی۔ کرپشن کو ختم کرنے کے بجائے اس کی ذریت کا اہتمام کر لیا گیا اب کوئی دس کروڑ کی کرپشن کرنے پر قادر ہے تو وہ اب باروہ کروڑ کی کرپشن کرے گا کہ دو کروڑ واپس بھی تو کرنے ہیں۔ سبحان اللہ یہ ہیں اس ملک کے دانشور پھر کہتے ہیں کہ جمہوری لوگ نظام کو تہہ و بالا کر دیتے ہیں۔
ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا یہاں اسمبلیوں اور سینیٹ میں ۹۸ فی صد اراکین الحمدُللہ مسلمان ہیں مگر ان کو کرپشن کے خلاف قانون سازی کے وہ اختیارات حاصل نہیں جو اس کو ختم کرنے کے متقاضی ہیں، اس کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل بھی موجود ہے جس کا بنیادی کام ہی یہ ہے کہ وہ ہر ہر معاملے میں اسلامی نکتہ نظر سے سفارشات پیش کرے اور شریعت، فقہ اور تاریخ کے مطالعہ سے اس کا نچوڑ قوم کے سامنے پیش کرے، سردست کرپشن پر ہی اسلامی نکتہ نظر کو قوم کے سامنے پیش کیا جائے کہ بیت المال اور سرکاری خزانے میں خورد برد کی اسلام نے کیا سزائیں مقرر کی ہیں اور اسلامی تاریخ، قرآن و حدیث میں اس بابت کیا فرمایا گیا ہے اور تمام اماموں نے اس پر کیا نظریہ قائم کیا، یہ ہے کام اسلامی نظریاتی کونسل کے کرنے کا جب کہ قومی اسمبلی جو ایک خود مختار ادارہ اس لحاظ سے نہیں کہ وہ قومی امنگوں کے منافی کوئی قانون سازی کرے۔
بدعنوانی چاہے کوئٹہ میں ہو یا لاہور، کراچی میں، پشاور اور چاہے اسلام آباد میں اس کا سارا بوجھ قومی خزانے اور عوام کی جیب پر ہی پڑتا ہے۔یہ بیت المال سے چوری کے مترادف ہے اور بیت المال سے چوری کی جو سزا اسلامی شریعت اور اسلامی حکومت میں کیا ہونی چاہیے وہی سزا آج کے ماڈرن بدعنوانی کے خلاف ہونی چاہیے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کرپشن کے خلاف سب سے پہلے اٹھائی جانے والی جماعت اسلامی کی آواز کو کہیں راستے میں ہی اچک لیا گیا ہے تاکہ اس کا کریڈٹ کوئی اسلامی جماعت کے کھاتے میں نہ چلا جائے اور اس پر کہیں اسلامی دفعات کا اطلاق نہ ہو جائے لہٰذا سیکولر قوتوں نے میڈیا سمیت تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے اس عظیم کارہائے نمایاں کو اپنی جھولی میں ڈال لیا ہے تاکہ اس میں پکڑے جانے والے بد عنوان افسران سیاست دانوں کو قرار واقعی سزاؤں سے بچایا جا سکے جماعت اسلامی یہ مہم اس وقت سے چلا رہی ہے جب تحریک انصاف کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی لیکن شاید جماعت اسلامی کی اس عظیم مہم کو چرکا لگانے کے لیے تحریک انصاف کو راتوں رات قوم کے اعصاب پر مسلط کر دیا گیا وگرنہ تو اس سے پہلے سیاست میں بدعنوانوں کا ہی راج تھا اور کرپشن کاہی رواج تھا اور بدعنوانی کا سکہ رائج تھا۔
اس ملک میں کیسے کیسے دانشور اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان ہے کہ ان کی عقل پر سوائے ماتم کرنے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے کہتے ہیں کہ کرپشن ختم کرنی ہے تو ہر جگہ لکھ کر لگادو Say no to corruption اس کا ایک مطلب تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملکہ کرپشن کو کچھ نہ کہو پھر اگر اس طرح ہر برائی ختم ہو سکتی ہے تو قانون کی ساری کتابوں کو آگ لگا دو پولیس اسٹیشن بند کردو عدالتوں کو تالے لگا دو پھر بس ہر جگہ Say no to theft تو چوری ختم، Say no to drinking تو شراب نوشی ختم،Sat no to adultory قحبہ گری ختم۔ جس طرح ۷۰ سال سے ہمارا حکمران طبقہ قوم کی تذلیل اور تحقیر کر رہا ہے یہ بھی ایک مذاق بلکہ مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
بدعنوانی ختم کرنی ہے تو اسکول سے لیکر پی ایج ڈی کی سطح تک اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا تاکہ ایک ایسی نسل تیار ہو سکے جو بدعنوانی، چوری، ڈاکا اور قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کے جرائم کا بعینہ ادراک کر سکے اور پھر ہر شخص اپنے گرد و پیش پر نظر رکھے کہ کون کتنی بد عنوانی کر رہا ہے اور کون کتنا بڑا بدعنوان افسر اور سیاست دان ہے اور وہ اس کا ہاتھ پکڑ سکے پھر عدالتوں کے ججوں کو بھی اسی طرح تربیت دی جائے اور ان کے نصاب میں بدعنوانی کے سدباب اور اس کے بھیانک نتائج پر مبنی ان کی تربیت کی جائے تاکہ وہ بھی بدعنوانی کے مقدمات کی سماعت کے دوران اپنا ذہن تیار کر سکیں کے اب اس بدعنوان افسر یا سیاست دان کو اسلامی دفعات کے تحت کتنی سخت سزا دے کر اس کو نشان عبرت بنایا جائے جب تک ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک پلی بارگین کی گندی نالی سے نکل کر بڑے بڑے بدعنوان گند گی پھیلاتے رہیں گے اور بیت المال پر ہاتھ صاف کرتے رہیں گے۔