سراب کے پیچھے بھاگنے کی کوشش

281

zc_Mian Muneerنواز شریف نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد اقتدار چھوڑ دیا اور شاہد خاقان عباسی کو اپنا جانشین نامزد کردیا اب وہ تکبر کے بجائے عوام سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگیں جنہوں نے انہیں تین بار وزیراعظم منتخب کیا مگر آج تک بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ذاتی اقتدار کے لیے این آر او جاری کر کے ہزاروں مجرموں، قاتلوں، دہشت گردوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کے خلاف مقدمات ختم کرکے ان کو جیلوں سے رہا کردیا تھا جن میں سے کئی بعد میں سیکورٹی تھریٹ بن گئے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کے بعد انہیں یاد آیا کہ ان کی نااہلی ’’سازش‘‘ کا حصہ ہے میڈیا میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف منظم مہم چلائی گئی تاریخ میں پہلی بار اپنی جماعت کی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی سرپرستی میں جی ٹی روڈ پر اسلام آباد سے لاہور احتجاجی مارچ کیا اور ریاست کے مقتدر اداروں کے خلاف ناروا الفاظ استعمال کرکے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اس افسوسناک رویے سے ریاستی اداروں اور شریف خاندان کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے ہیں اور اب عدلیہ کے فیصلے پر عمل درآمد ہوگا اسی لیے تو سابق وزیراعظم اور ان کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کو نیب نے العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں مزید تحقیقات کے لیے طلب کر رکھا ہے‘ اور شاہی خاندان پیش ہونے سے انکار کر رہا ہے کیا یہ وہی انقلاب ہے جس کا نعرہ جی ٹی روڈ پر لگایا گیا۔



کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی مثل مشہور ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے نواز شریف وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا دیے گئے اُن کی جگہ قومی اسمبلی کے رکن شاہد خاقان عباسی نے لی ہے قومی اسمبلی میں ارکان نئے وزیراعظم کو ووٹ کے ذریعے منتخب کرتے ہیں جب شاہد خاقان عباسی کو اس اعتماد کے ووٹ کی ضرورت پڑی تو مسلم لیگ (ن) کو خدشہ تھا کہ کہیں اُس کے کچھ ارکان ٹوٹ کر حزب اختلاف یا پیپلز پارٹی سے نہ مل جائیں۔ احتیاطاً اُنہوں نے اپنے حلیفوں مولانا فضل الرحمن اور ملی عوامی پارٹی کے علاوہ ایم کیو ایم کو بھی پیغام بھیجا جو پنجاب کے وزیراعلیٰ یا نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے ذریعے ایم کیو ایم (پاکستان) کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو فون پر دیا گیا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کافی ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم مسائل سے دوچار تھی۔ اُس کی صفوں میں انتشار پھیل چکا تھا، ایک کے بجائے 4 ایم کیو ایم بن چکی تھیں۔ فاروق ستار نے (ن) لیگ کی دعوت کو موقع غنیمت جانا اور کچھ گفت و شنید کے بعد شاہد خاقان عباسی کی حمایت کا اعلان کردیا وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ گلیوں گلیوں چکر لگاتے رہے۔ کبھی یہ ترقیاتی پروگرام کبھی وہ منصوبہ، سب کچھ اُن کی مرضی کے تابع ہوکر رہ گیا، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخابات کے وقت ایم کیو ایم نے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کچھ شرائط رکھیں۔ گورنر سندھ کے ذریعے بات چیت ہوئی اور شاہد خاقان عباسی نے کراچی کے لیے اسمبلی سے منظور ہوئے بجٹ اور قومی فنانس کمیشن کے تحت ملنے والی رقم کے علاوہ 24 ارب روپے شہرِ قائد اور 5 ارب روپے حیدرآباد کی ترقی کے لیے مختص کرنے کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ سرعت کے ساتھ اس رقم کو کابینہ سے منظور بھی کروا ڈالا۔



ایم کیو ایم کے ذرائع کے مطابق، اُنہوں نے یہ بھی وعدہ کیا کہ حکومت میں علیحدہ سے منظور کی جانے والی رقم یا منصوبوں پر خرچ کیا جانے والا پیسہ حکومتی اداروں سے کئی مراحل میں منظور کیا جاتا ہے، اُن میں نیشنل اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی، سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی بھی شامل ہیں، اُن سب سے منظوری وہ خود ہی لے کر دیں گے۔
ایم کیو ایم کو پکی پکائی کھیر مل گئی اُسے اور کیا چاہیے ۔ اتنی خطیر رقم سندھ حکومت کے اکاؤنٹ میں جانے کے بجائے شہری حکومت کے تحت خرچ کی جائے گی۔ گورنر سندھ اس کی مانیٹرنگ کریں گے، گویا پیپلز پارٹی کو بیک جنبش قلم رد کردیا گیا گورنر صاحب نے نئے وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق 30 ارب روپے جو کراچی اور حیدرآباد میں ہسپتال، میڈیکل کالج، سڑکوں کی بحالی کے لیے دیے جائیں گے۔ گورنر سندھ کا یہ کہنا کہ کراچی کی ترقی اُن کا فرض اوّلین ہے، ہم سب کے لیے تقویت کا باعث ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلز پارٹی کے عہدیداران اسے قبول نہیں کریں گے، لیکن اُس سے کیا ہوتا ہے، وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہوگا۔ کراچی کا حال بُرا ہے، سونے کا انڈا دینے والی اس مرغی کا وارث کوئی نہیں۔



شاہد خاقان عباسی جب کراچی تشریف لائے تو نواز شریف کی ہدایت کے مطابق (ن) لیگ کے سابق رہنما غوث علی شاہ اور ایم کیو ایم سے ملے۔ لگتا یہی ہے کہ نواز شریف سندھ میں اپنی پارٹی کو دوبارہ منظم کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کا حق ہے، لیکن ایسی صورت میں جب کہ عدالت عظمیٰ نے اُن پر سیاست میں حصّہ لینے پر تاحیات پابندی لگادی ہے، اُن کا جلسے جلوس کا پروگرام عجیب ہی لگتا ہے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے نام خط میں کہا ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران پی ایس او کے حکام نے انکشاف کیا کہ ملک میں پٹرول اور ڈیزل تقریباً 30 اور 35 روپے فی لیٹر خرید کر 70 اور 80 روپے فی لیٹر کے حساب سے فروخت کیا جا رہا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت خرید اور فروخت میں اس بڑے فرق کی وجہ ظالمانہ حکومتی ٹیکس اور لیویز ہیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ پٹرول اور ڈیزل استعمال کرنے والے 70 فی صد عوام کا تعلق نچلے طبقے سے ہے۔ اس طرح ان کی روزمرہ زندگی پر اضافی بوجھ لادا جا رہا ہے۔ حکومت اپنے ٹیکس کے نظام کی درستی کے لیے فوری اقدامات کرے اور ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں کمی لائے تاکہ عام آدمی کے سر سے ٹیکس کا بوجھ کم ہو سکے۔



بی بی سی جیسے جید کہلاتے عالمی صحافتی ادارے نے نواز شریف کے زوال کے اسباب بیان کرنے کے لیے ایک خصوصی ڈاکومنٹری تیار کی۔ اس ڈاکومنٹری میں نواز شریف کے ’’عبرت ناک انجام‘‘ کے بارے میں ہمارے کئی نامور صحافی بھی بہت شاداں دکھائی دیے۔ ان میں سے چند نواز شریف کے تیسرے دور میں ان کے کافی چہیتے قرار پائے یہ بات دیوار پر لکھی تحریر کی صورت عیاں ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے ’’گاڈ فادر‘‘ قرار دیے جانے کے بعد اب شریف خاندان کو جسے اس عدالت نے ’’سسیلین مافیا‘‘ بھی کہا تھا ہماری ریاست کے دائمی اداروں کے پاس عبرت کا نشان بنانے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں رہا۔ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیراعظم کو ’’اقامہ‘‘ کی حقیقت نہ بتانے کے جرم میں صادق اور امین نہ پاتے ہوئے نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر واپسی کا امکان تلاش کرنا سراب کا تعاقب کرنے کے مترادف ہے اس نااہلی کے بعد شریف خاندان کا مقدر بدعنوانی کے الزامات کے تحت چلائے وہ مقدمات ہیں جنہیں عدالت عظمیٰ کے ایک معزز رکن کی براہِ راست نگرانی میں احتساب بیورو کو تیار کر کے احتساب عدالتوں کے روبرو پہنچانا ہے۔ اِن مقدمات کو نمٹانے کے لیے 6ماہ کے مدت بھی طے کر دی گئی ہے۔

ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھے نواز مخالفین کی اب یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ ان مقدمات کی تیاری پر مبذول رکھیں۔ اپنے ساتھ ’’زیادتی‘‘ کا بیانیہ شریف خاندان کے بھی کسی کام نہیں آئے گا۔ ان کی پہلی اور آخری ترجیح بھی بدعنوانی کے الزامات کے تحت قائم مقدمات کے بھرپور قانونی دفاع کی تیاری ہونا چاہیے عدالت عظمیٰ سے نواز شریف کی نااہلی کے بعد ہمارے ہاں ’’تاریخ میں پہلی بار‘‘ کے چرچے بھی بہت ہیں۔ یہ چرچا کرتے وقت شاید ہی کسی کو یاد رہا ہو کہ نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف بھی مقدمہ بنا تھا عبدالولی خان اس کے سربراہ تھے اس جماعت کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک باقاعدہ ریفرنس پیش ہوا تھا۔ اس ریفرنس کے ذریعے طے یہ ہوا کہ ولی خان اور ان کی جماعت ’’غدار‘‘ ہے ان کی پوری جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے لہٰذا نااہل قرار دے دیا گیا۔



نااہلی کے اس فیصلے کے بعد حیدر آباد ٹربیونل قائم ہوا۔ اس کے روبرو نیشنل عوامی پارٹی کے بے شمار قائدین پر بغاوت کے سنگین الزامات کے تحت مقدمات چلا کر انہیں عبرت کا نشان بنانا تھا۔ خان عبدالولی خان اور ان کے ساتھی مگر اپنے طے شدہ انجام تک نہ پہنچ پائے جنرل ضیاء الحق نے انہیں جیلوں سے رہا کر کے ان کے خلاف مقدمات ختم کر دیے اور یوں ریفرنس کا باب ہی بند ہوگیا لیکن نواز شریف کا کیس ذرا مختلف ہے۔