افغانستان میں امریکا سولہ سال سے موجود ہے اور بظاہر ایسے لگتا ہے کہ اس عرصے کے دوران مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اسے نئی پالیسی تشکیل دینا پڑ رہی ہے، وہاں ہونے والی ہزیمتوں کی وجہ ہی سے امریکی صدر ٹرمپ کو پچھلے دنوں یہ کہنا پڑا تھا کہ وہ افغانستان میں اپنے کمانڈر کو برطرف کردیں گے یہ بیان بھی اس بات کا غماز ہے کہ انہوں نے افغانستان میں امریکی فوج کی آمد کے بعد سود وزیاں کا جو حساب لگایا اس میں انہیں ناکامیوں کا پلڑا بھاری نظر آیا، ویسے اندرونِ ملک بھی ان کے لیے حالات کوئی زیادہ سازگار نہیں ہیں صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک وہ اپنے کئی اہم مشیروں کو ان کے عہدوں سے ہٹا چکے ہیں جن میں وہ بھی شامل تھے جو انہیں برسر اقتدار لانے کی مہم کامیابی کے ساتھ چلاتے رہے، اسی بنیاد پر ان کے مواخذے کی تحریک کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ کوئی امریکی صدر شاید ہی اتنے مختصر عرصے میں اتنا زیادہ غیر مقبول ہوا ہو کہ عام لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ اقتدار نائب صدر کے حوالے کردینا چاہیے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کے لیے دہشت گردی اور حریت پسندی کے درمیان فرق کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے اسی لیے تو وہ کشمیری حریت پسند سید صلاح الدین اور ان کی جماعت حزب المجاہدین کو بلا سوچے سمجھے اور عجلت میں دہشت گرد قرار نہ دیتا۔ سید صلاح الدین کشمیری ہیں اور ان کی جماعت کشمیریوں پر مشتمل ہے اور آزادی کی جنگ اقوام متحدہ کے بنائے ہوئے اصولوں اور ضابطوں کی حدود میں رہ کر لڑرہی ہے کشمیر کا مسئلہ اب بھی عالمی ادارے کے ایجنڈے پر موجود ہے یہ تو بھارت ہے جو سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کی مخالفت کررہا ہے اور اس ادارے کی رکنیت کا امیدوار بھی ہے۔ بھارت کے رہنماؤں کو خوش کرنے کے لیے صدر ٹرمپ نے کشمیریوں کی آزادی کی خاطر جانیں قربان کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے دیا اور اس ریاستی جبر کو سرے سے ہی نظر انداز کردیا۔
کشمیر میں اگر مودی صدر ٹرمپ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے تو افغانستان میں صدر اشرف غنی انہیں گمراہ کررہا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکا اس ایک نقطے پر اٹک کررہ گیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی وجہ سے افغانستان میں دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکا، اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری آچکی ہے اور امریکا نے پاکستان کے وہ فنڈز بھی روک لیے ہیں جو کولیشن سپورٹ کے تحت پاکستان کو ادا کرنے تھے یہ دہشت گردی کی جنگ پر اٹھنے والے اخراجات ہیں جس میں پاکستان کو امریکا کی وجہ سے اْلجھنا پڑا، یہ کوئی امداد یا گرانٹ نہیں ہے جسے جب چاہا بند کردیا اور جب من کی موج آئی دوبارہ کھول دیا، دیکھا جائے تو پاکستان پر دہشت گردی کا جو بھی عذاب مسلط ہوا وہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے کے بعد ہی آیا، خود کش حملوں کا کوئی تصور اس سے پہلے پاکستان میں نہیں تھا، لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ اس جنگ میں پاکستان کے جسدِ قومی کو جو زخم لگے ان کی کسک امریکا میں محسوس نہیں کی جارہی نہ ان قربانیوں کا صدق دل سے اعتراف کیا جا رہا ہے جو پاکستان نے دیں، جانی قربانیوں کا صلہ تو خیر کسی کو کیا دینا تھا، معیشت کی تباہی کا عشرِ عشیر بھی نہیں ملا، لے دے کے کولیشن سپورٹ فنڈ تھا وہ بھی بند کردیا گیا، ایسے میں پاک امریکا تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی باتوں کو زیادہ سے زیادہ خوب صورت الفاظ کا اعادہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے، امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات کی تاریخ میں اونچ نیچ تو آتی رہی ہے لیکن ’’اعتماد کا یہ بحران‘‘ جو اس وقت ہے اس کا مظاہرہ شاید ماضی میں بہت کم دیکھنے میں آیا۔