لب و لہجہ بدلا ہے پالیسیاں نہیں۔۔۔

192

صفیہ نسیم
امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکم مارچ کو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں سے اپنا پہلا خطاب کیا۔ اگرچہ اس خطاب میں کوئی نئی بات نہ تھی وہی اسلامی دہشت گردی کو ختم کرنے کا عزم، امریکا کو عظیم بنانے اور سرحدوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا تذکرہ، صحت کے پروگراموں میں تبدیلی کی باتیں وغیرہ جو وہ اِس سے قبل اپنی انتخابی مہمات میں بھی کرچکے ہیں۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس بار صدر ٹرمپ نے جارحانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے نسبتاً ٹھیرے ہوئے اور معتدل لب و لہجے سے تقریر کی اور خود پر بہت حد تک قابو رکھا۔ شاید اِسی وجہ سے اُن کے خطاب کو بہتر قرار دیا جارہا ہے اور امریکی نشریاتی اداروں کے فوری سروے رپورٹ کے مطابق امریکی عوام کی اکثریت نے صدر ٹرمپ کے خطاب کو مثبت قرار دیا ہے۔



صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح کو کثرت سے استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی موقف کو دہرایا کہ وہ دہشت گردی میں ملوث ’’اسلامی‘‘ ممالک کے لوگوں کا امریکا میں داخلہ روک دیں گے۔ جس کے لیے سرحدوں پر سخت نگرانی، مخصوص ممالک پر پابندیوں سمیت ویزے کی فراہمی میں مزید سخت جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ نے اِس پر کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ ماضی میں خود امریکی پالیسیوں اور جارحانہ اقدامات کے ردعمل کے طور پر جو دہشت گردی اُبھری اور جس کا خمیازہ آج پوری دنیا بھگت رہی ہے، اُس کا سدباب کس طرح سے ممکن ہے، دوسرے ممالک میں امریکی دراندازی محض فوج کشی اور پابندیوں تک محدود نہیں بلکہ امریکا در پردہ بیرونی ممالک میں اپنے مفادات کی حامل آمر حکومتوں کی مدد کرکے ہزاروں لاکھوں افراد کے قتل کا نہ صرف ذریعہ بنا ہے بلکہ مزید شرمناکی یہ کہ اِن ممالک کے متاثرہ افراد کو کسی بھی سطح پر کوئی مدد فراہم نہیں کرنا چاہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں جاری خانہ جنگی اور تباہی و بربادی کی بڑی حد تک ذمے داری امریکا پر لاگو ہوتی ہے۔ انہی پالیسیوں کا تسلسل اگر جاری رہتا ہے تو امریکا کو مزید ’’غیر محفوظ‘‘ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔



امریکا شام پر ایک عرصے سے پابندی کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ابھی 28 فروری کو امریکا کی طرف سے پیش کردہ ایسی ہی ایک قرار داد چین اور روس کی طرف سے ویٹو کردی گئی امریکا اور مغربی ممالک کا خیال ہے کہ شام نے چار سال قبل کیمیاوی ہتھیار تلف کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ وفا نہیں کیا۔ لہٰذا اُسے پابندیوں میں جکڑ دینا چاہیے۔ جب کہ چین اور روس پابندیوں کے بجائے گفت و شنید پر زور دے رہے ہیں۔ ویسے یہ بھی خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے کے بجائے ایران کو زیادہ فوکس کررہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ کسی مناسب خارجہ پالیسی کے خدوخال واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر یوں لگ رہا ہے کہ سابقہ پالیسیوں کا تسلسل ہی جاری ہے۔



البتہ صدر ٹرمپ تارکین وطن سے متعلق اپنے نقطہ نظر میں نرمی کرتے ہوئے اس معاملے میں تجاویز سننے پر تیار ہوگئے ہیں۔ جسے ایک اہم تبدیلی قرار دیا جارہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ریبپلکن اور ڈیمو کریٹس دونوں سے اپیل کی ہے کہ وہ امیگریشن اصلاحات کے حوالے سے مل کر کام کریں لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکا میں پناہ کے لیے کم درجے کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں والے تارکین وطن پر انحصار کرنے کے بجائے میرٹ پر مبنی نظام متعارف کروانا چاہیے۔ گویا اِس حوالے سے بھی کوئی واضح پالیسی نظر نہیں آرہی۔ صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم اور بعدازاں صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد تارکین وطن اور خصوصاً مسلم کمیونٹی کے خلاف جو پالیسیاں اختیار کیں اُنہیں خود اُن کے عوام، عدلیہ اور میڈیا نے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ نومنتخب صدر بھی اپنی سابقہ پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے کوئی واضح اور مثبت اعلان کرتے لیکن اُن کا رویہ مایوس کن ہی رہا۔



ایسے میں صدر ٹرمپ کے خطاب کو اُن کے سابقہ بیانات اور اعلانات کا تسلسل ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا معقول لب و لہجے سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ اپنے جارحانہ اقدامات میں کوئی تبدیلی لائیں گے محض خام خیالی ہے۔