اسلام آباد(خبرایجنسیاں +مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دھمکی آمیزبیانات اورالزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی ختم کرکے موثرکارروائی کرے،پاکستان کو قربانی کا بکرابنا کرافغانستان میں امن نہیں لایا جاسکتا۔جمعرات کو اسلام آباد میں وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس ہوا ۔یہ اجلاس امریکی صدر ٹرمپ کے جنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی بیان پر پاکستان کا مفصل ردعمل طے کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔اجلاس میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف، وزیر خزانہ اسحق ڈار، وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر دفاع خرم دستگیر خان کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ائر چیف ایئر مارشل سہیل امان، نیول چیف ایڈمرل محمد ذکا اللہ، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل(ر)ناصر خان جنجوعہ، ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور دیگر حکام شریک تھے۔
وزیراعظم نے شرکاء کو دورہ سعودی عرب کی تفصیلات سے آگاہ کیا ۔5گھنٹے طویل اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا کہ افغان جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جا سکتی‘ملکی خودمختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتانہیں کیا جائے گا‘پاکستان چاہتا ہے کہ امریکی فوج افغان سرزمین پر قائم دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور ٹھکانوں سمیت پاکستان میں دہشت پھیلانے والوں کو ختم کرنے کے لیے فوری اور موثر کارروائی کرے۔پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے سب سے قریبی پڑوسی ہونے کی وجہ سے وہاں امن اور استحکام پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے اور وہ ماضی میں امریکا اور افغانستان کے ساتھ مل کر سیاسی بات چیت کے ذریعے اس جنگ زدہ ملک میں امن اور استحکام لانے کے لیے کام کر چکا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جہاں تک پاکستان کی بات ہے وہ دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے خلاف بلاتفریق کارروائیاں کر چکا ہے اور اس کے لیے ہزاروں فوجیوں اور عام شہریوں کی قربانیاں بھی دی ہیں۔بیان کے مطابق پاکستان میں سیکورٹی کی صورتحال میں بہتری دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے بغیر ممکن نہیں تھی۔قومی سلامتی کی کمیٹی کا کہنا تھا کہ ہم دیگر ممالک کے شہریوں کی جانوں کو بھی اتنا ہی مقدم سمجھتے ہیں جتنا کہ اپنے شہریوں کی، اسی لیے پاکستان اپنی سرزمین کو کسی دوسری ملک میں فساد پھیلانے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا، ہم اپنے پڑوسیوں سے بھی ایسی ہی توقع رکھتے ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اربوں ڈالرز کی امداد کا دعوی بھی گمراہ کن ہے اور پاکستان کو 2001ء کے بعد سے ہونی والی ادائیگیوں کا تعلق امریکا کی جانب سے افغانستان میں آپریشن کے لیے زمینی اور فضائی حدود کے استعمال سے ہے نہ کہ کسی مالی امداد سے۔کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ مادی یا مالی امداد کے بجائے پاکستان کی کوششوں، تعاون اور ہزاروں پاکستانیوں کی قربانیوں کو سراہا جانا چاہیے تھا۔
کمیٹی نے بھارت کے حوالے سے بیان میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں سلامتی یقینی بنانے والا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس کے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات تنازعات کا شکار ہیں۔کمیٹی کی جانب سے بھارتی پالیسیوں کو خطے میں امن کے لیے خطرناک‘ قرار دے کر اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت ہمسایہ ممالک کے اندورنی معاملات میں دخل اندازی کرنے کے لیے دہشت گردی کو ریاستی پالیسی میں بطور آلہ کار استعمال کرتا ہے۔