پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟

232

Edarti LOHامریکا کی دھمکیوں کے جواب میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت، عسکری ادارے اور تمام قومی و سیاسی رہنما مل کر لائحہ عمل طے کریں۔ اس وقت پوری قوم امریکا کے خلاف یک زبان اور متحد ہے۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت نے امریکی دھمکیوں کی مذمت کی ہے لیکن حکمرانوں کے لیے اس وقت آئین کی شق 62-63 سے نجات حاصل کرنا اور نواز شریف کو کسی طرح بچانا زیادہ اہم ہے۔ تاہم گزشتہ بدھ کو پاکستان کے ایوان بالا کے ارکان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے خلاف دھمکیوں کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ ارکان سینیٹ نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے احتجاجی مراسلہ دیا جائے۔ بظاہر تو یہ رسمی کارروائی ہوتی ہے لیکن متعلقہ حکومت تک پیغام پہنچ جاتا ہے۔ ارکان سینیٹ نے وزیر دفاع خرم دستگیر خان کے بیان پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے جسے چیئرمین سینیٹ نے معذرت خواہانہ قرار دیا ہے۔ سینیٹروں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ امریکا سے تعلقات کی نوعیت پر نظر ثانی کی جائے اور اس پر واضح کردیا جائے کہ پاکستان اپنی زمینی اور فضائی حدود کے استعمال سے انکار بھی کرسکتا ہے۔



پاکستان کی یہ پالیسی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا اس کے باوجود اس پر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام ہے۔ لیکن دوسری طرف پاکستان اپنی اعلانیہ پالیسی کے برعکس امریکا کو افغانستان کے خلاف اپنی زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیتا چلا آرہا ہے۔ اس سے امریکا کے حوصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ یہاں تک ہوا کہ امریکا کو ائر بیس فراہم کیے گئے جہاں سے امریکی طیارے پرواز کرکے افغانوں پر بمباری کرتے تھے۔ اسی طرح پاکستان کی زمینی حدود بھی امریکا کے استعمال میں رہی ہیں اور ایک پڑوسی ملک کے خلاف پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے ہر طرح کی خدمت کے باوجود امریکا کبھی راضی نہیں ہوا۔ نئے نئے وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے سینیٹ میں اپنے خطاب میں پاکستان کی یہی خدمات گنوائی ہیں اور کہا کہ پاکستان اور امریکا دہشت گردی کے خلاف بہت قریبی اتحادی رہے ہیں۔ مگر کیا اب بھی یہ اتحاد برقرار ہے؟ امریکا تو پاکستانی خدمات تسلیم کرنے پر تیار ہی نہیں۔



چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے واضح کیا کہ امریکا پاکستان کو ویتنام اور کمبوڈیا نہ سمجھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ پاکستان امریکی فوجیوں کا قبرستان بنے تو اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ ابھی تو 16 برس سے افغانستان امریکی فوجیوں کا قبرستان بنا ہوا ہے حالانکہ افغان حریت پسند امریکا کے مقابلے میں عسکری لحاظ اور جدید اسلحہ کے معاملے میں بہت پسماندہ ہیں۔ لیکن جنگیں صرف اسلحہ سے نہیں، جذبوں سے لڑی جاتی ہیں۔ امریکا اس کا تجربہ ویتنام کی طویل جنگ میں کرچکا ہے اور اب ایک چھوٹا سا ملک شمالی کوریا اس کے مقابلے میں تن کر کھڑا ہوا ہے اور امریکا کو خدشہ ہے کہ وہ کہیں ایٹمی حملہ نہ کردے۔ وینز ویلا جیسا چھوٹا سا ملک بھی امریکا کو ترکی بہ ترکی جواب دیتا رہا ہے۔ پاکستان تو دور کی بات، ابھی تو برسوں سے افغانوں نے امریکا کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ اس سے پہلے دوسری بڑی عالمی طاقت سوویت یونین کو فرار ہونے پر مجبور کیا جس کے بعد سوویت یونین ایک بار پھر روس بن گیا۔ پاک فوج کے سالار قمر باجوہ نے امداد بند کرنے کی امریکی دھمکی پر کہا ہے کہ بے شک امریکا امداد نہ دے لیکن ہماری قربانیوں کا اعتراف تو کرے، ہمیں تو بس امریکا کا اعتماد چاہیے۔ اسے سادگی کی انتہا ہی کہا جاسکتا ہے۔



امریکا دوسرے ملکوں کو اپنا غلام سمجھتا ہے اور غلاموں پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کی طرف سے واضح کیا گیا ہے کہ امریکا ہمارا متبادل تلاش نہیں کرسکتا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہے تو ڈو مور کے بجائے ہمارا ساتھ دینا ہوگا۔ اس ردعمل میں بھی یہ آرزو جھلک رہی ہے کہ امریکا ہمارا ساتھ نہ چھوڑے، ہمارے جیسا کوئی دوسرا نہیں ملے گا۔ یہ اشارہ امریکا کی طرف سے بھارت کو افغانستان میں داخل کرنے اور اسے نوازنے کی طرف ہے۔ یعنی یہ کہا جارہا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں بھارت پاکستان کا متبادل نہیں ہوسکتا ۔لیکن بھارت کی لابی امریکا میں بہت مضبوط ہے اور اسے امریکا کے لے پالک اسرائیل کا تعاون بھی حاصل ہے۔ دونوں ہی اعلانیہ پاکستان کے دشمن ہیں اور یہ بات نریندر مودی کے دورہ اسرائیل میں کھل کر کہی جاچکی ہے۔ افغانستان میں بھارت کو بڑھاوا دینے کا ایک مطلب اسرائیل کی مداخلت بھی ہے جو بھارت کے کندھوں پر سوار ہوکر افغانستان میں نہ صرف من مانی کرے گا بلکہ دونوں مل کر پاکستان کو نقصان پہنچائیں گے۔ امریکا کی قومی سلامتی کونسل نے ٹرمپ کی دھمکیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سے جاری معاملات اب ختم ہوگئے، پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔



پاکستان فیصلہ کرے کہ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں زیادہ اہم ہیں یا امریکا سے تعلقات۔ اس سے تعلقات کا انحصار ہمارے مطالبات کے نتائج پر ہوگا۔ ایک بار پھر یہ شوشا چھوڑا گیا کہ ہم (امریکا) پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق فکر مند ہیں۔ جیسے یہ کسی طاق میں رکھے ہوئے ہیں جن کو کوئی دہشت گرد آسانی سے اٹھاکر بھاگ سکتا ہے۔ لیکن دنیا تو امریکا کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں فکر مند ہے جن کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور امریکا واحد ملک ہے جو ایٹم بم استعمال کرکے جاپان میں تباہی پھیلا چکا ہے۔ امریکی دھمکیوں کے باوجود پاکستانی قوم میں کوئی خوف و ہراس نہیں ہے۔ امریکا کو بڑی پریشانی چین کی طرف سے ہے جو خود ایک بڑی طاقت ہے اور خطے میں تیزی سے اپنی موجودگی بڑھارہا ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ ان حالات میں پاکستان کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ امریکا سے براہ راست محاذ آرائی ضروری نہیں ہے۔ لیکن امریکیوں سے رابطے کیے جانے چاہییں۔ وہاں پر ہر شخص ٹرمپ کی طرح ذہنی مریض نہیں ہے۔



ٹرمپ کو اپنے ہی ملک میں جن مسائل کا سامنا ہے ان سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی کرسکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے تمام ذمے دار طبقے مشاورت میں مصروف ہیں اور جو بھی فیصلہ ہوا قوم اس سے اتفاق کرے گی۔ جمعرات کو بھی ایک طویل اجلاس ہوا ہے اور امید ہے کہ معقول فیصلے کیے جائیں گے۔ لیکن اس وقت مسلم لیگ ن اپنے ہی معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ بہتر ہے کہ وہ بھی کچھ عرصے کے لیے نواز شریف کو لگنے والا زخم بھلاکر قومی دھارے میں آجائے۔