گلوبلائزیشن اور مزدور تحریک کی زبوں حالی

217

Qamoos-Gullقموس گل خٹک

گلوبلائزیشن ورلڈ آرڈر سے پہلے طاقتور ترقی یافتہ ممالک براہ راست معاشی اور فوجی لحاظ سے کمزورترقی پذیر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے تھے ۔تھوڑا بہت ملکوں کے جغرافیائی حدود کا احترام ہوتا تھا مگر عالمگیریت کے حوالے سے پوری دنیا کو ایک گاؤں اور بین الاقوامی منڈیوں کو ایک منڈی قرار دے کر عملاً جغرافیائی حدود کا احترام ختم کردیا گیا ۔ جس کی وجہ سے سامراجی ممالک براہ راست کمزور اور ترقی پذیر ممالک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے کے ساتھ ساتھ وہ فوجی کارروائی بھی کررہے ہیں اور ایسی کارروائیوں کے لیے سلامتی کونسل سے جائز ہونے کا سر ٹیفکیٹ بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ عراق ، لیبیا، افغانستان ، شام اور کئی مسلمان ملکوں کی مثالیں موجود ہیں جبکہ گلوبلائزیشن سے پہلے معاشی طورپر مضبوط ممالک کمزور ملکوں پر حملے کرکے قبضوں کے ذریعے اپنے پیداوار کے لیے منڈیاں حاصل کرتے تھے لیکن عالمگیریت کے بعد یہ کام مفاہمت کی یادداشتوں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے قرضوں اور دوستی کے حوالوں سے کیاجارہا ہے ، کہا جاسکتا ہے کہ مقصد وہی ہے کہ کمزور اور مقروض ممالک کی قومی آمدنی کابڑا حصہ لوٹ کر طاقتور ممالک اپنے ملک لے جائیں صرف طریقے اور حوالے تبدیل کیے گئے ہیں ۔معاشی طورپر مضبوط ملک اپنی پیداوار کمزور ملکوں کی منڈیوں میں فروخت کرتے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک کو اپنی منڈیوں میں پیداوار کی فروخت پر ایسے شرائط اور ٹیکس عائد کرتے ہیں کہ عملاً کمزور ممالک اپنا مال فروخت نہ کرسکیں ۔



اس ضمن میں یورپی یونین نے 2014 میں GSP پلس کے حوالے سے جوپاکستان کو دس سال تک مشروط رعایت دی ہے جس میں آئی ایل او کے تسلیم شدہ کنونیشن اور لیبر اسٹینڈر پر عملدرآمد قابل ذکر ہیں، کیا اس ملک کے کارخانے دار اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ یورپی یونین کی عائد کردہ شرائط کے مطابق محنت کشوں کو سہولیات فراہم کریں گے یہ اب تک تونظر نہیں آتا اور نہ ہمارے ملک کے زیادہ تر کارخانے داروں کے مائنڈسیٹ کو دیکھ کر یہ امید کی جاسکتی ہے ۔ جو کارخانے دار ٹریڈ یونین کے وجود کو صنعت کاری کے لیے زہر قاتل سمجھتے ہیں اورعملی طورپر انجمن سازی کا حق استعمال کرنا ممکن نہیں رہا۔عام طورپر کارخانوں میں ایک سے زائد ٹریڈ یونین خود مالکان نے لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے بنواکر کاغذوں میں سی بی اے کے تعین کے لیے ریفرنڈم بھی کروارکھے ہیں اور ان کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور اس پوری کارروائی سے لاتعلق اور لاعلم ہیں۔ جس ملک کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو ملازمت پر تقرری کا لیٹر نہیں ملتا اور وہ کسی صورت میں یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ وہ کس کارخانے میں ملازم ہیں۔



اکثر اوقات کراچی جیسے شہر میں شفٹ Cمیں کام کرنیوالے مزدوروں کو پولیس پکڑ کر اس بات پر تھانے میں بند کردیتی ہے یا ان سے پیسے لیکر چھوڑ دیتی ہے کہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ واقعی کارخانے میں کام کرنے کے بعد گھر جارہے ہیں یا اسٹریٹ کرائم کی غرض سے رات کو گھوم رہے ہیں۔ جن مزدوروں کے پاس تقرری کا لیٹر نہیں ہوتا وہ سوشل سیکورٹی اور ای او بی آئی سے بھی رجسٹرڈ نہیں ہوتے تاکہ ان کی کوئی شناخت نہ ہو ۔ جس ملک میں کم از کم اُجرت اتنی مقرر کی جاتی ہے کہ اس میں سرمایہ دار ایک بھینس کو مہینے بھر چارہ کھلاتے ہیں اور اس پر بھی عملدرآمد نہ ہو بلکہ کھلے عام کارخانوں، چھوٹی صنعتوں ، دکانوں اور متعدداداروں میں مزدور آٹھ ہزار ماہوار پر کام کرتے ہوں اس ملک میں یہ توقع رکھناکہ کارخانے دار جی ایس پی پلس کے ساتھ عائد کردہ شرائط پر عمل کریں گے خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔خدا کرے ایسا ہو کہ ہمارے ملک کے تمام صنعت کار اپنے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرکے یہ سمجھ لیں کہ خوشحال تندرست اور مطمئن مزدور ہی بہتر پیداوار کا ذریعہ بن سکتا ہے اور ٹریڈ یونین اس مقصد کے لیے مزدوروں کو متحرک کرنے کا بہترین ادارہ ہے ۔



بشرطیکہ ٹریڈ یونین کے ذریعے مزدوروں کو سہولیات پہنچائی جائے ۔پاکٹ یونین کسی صورت میں بھی مزدوروں کو متحرک نہیں کرسکتی اور نہ نیم غلامی کے حالات میں کوئی بہتر کام کرسکتاہے ۔ہم ملک بھر کے مزدور رہنما ہرفورم پر بار بار کہتے ہیں کہ پاکستان کی مزدور تحریک سمجھدار ہوچکی ہے اور ملکی انڈسٹری کے فروغ کے سلسلے میں ہر قسم کی جائز ذمہ داری پوری کرنے کے عمل میں شریک ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ملک کی معیشت مضبوط ہوگی، ملک میں سرمایہ کاری ہوگی تو بے روز گاری اور اسٹریٹ کرائم میں نمایاں کمی آئے گی مزدور اپنے فرائض پورے کرنے کے ساتھ ساتھ جائز حقوق کے لیے ٹریڈ یونین بناسکیں گے اور ٹریڈ یونین کے مثبت جدوجہد سے سرمایہ داروں اور مزدور رہنماؤں کے مابین بہتر تعلقات قائم ہوسکیں گے ۔جس کے نتیجے میں سب سے زیادہ فائدہ صنعتوں کوہوگا۔ اس کے بعد کسی حدتک مزدوروں کو ہوگا۔ مگر بیشتر کارخانے دار مزدور رہنماؤں کے اس قومی جذبے اور ذمہ دارانہ طرز عمل کی قدر کرنے کے بجائے اس کو مسترد کرنے میں اپنی شان سمجھتے ہیں ۔



ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ گلوبلائزیشن کا اژدھا صنعت کا ر اور مزدور دونوں کو ہڑپ کرنے کے لیے منہ کھول کر ملک کی سرحدوں کو پار کرکے آرہاہے ۔ اس سے ملک کی صنعتوں اور اپنے وجود کوبچانے کے لیے ہمیں ایک ہونا پڑے گا کیوں کہ ہم ایک کشتی کے سوار ہیں جب کوئی بدخواہ اس کشتی میں سوراخ کرے گا تو ہم دونوں ڈوب جائیں گے۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ کچھ صنعت کار Webcop کی وجہ سے اور کچھ اپنے مائنڈ سیٹ کی وجہ سے آج اس صورتحال کو سمجھنے لگے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ مل کر ٹریڈ یونین کی آزادی، لیبر اسٹینڈر اور سہ فریقی ویلفیئر اداروں میں مزدوروں کو مراعات کی فراہمی وغیرہ پر اتفاق کرتے ہیں۔ ایسے صنعت کار مزور رہنماؤں کے ساتھ مل کر سہ فریقی ویلفیئر اداروں میں جعلی نمائندگی اور شرمناک کرپشن کو ختم کرنے کے لیے بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں جیسے کہ حال ہی میں سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن اور منیمم ویجیز بورڈ میں شرمناک نمائندگی سامنے آئی ہے اور صنعت کاروں کی تنظیم نے عدالت میں اس کو چیلنج کیا ہے۔



یہ صنعت کار جانتے ہیں کہ سہ فریقی ویلفیئر اداروں کو فنڈ وہ اس لیے فراہم کرتے ہیں کہ اس فنڈ سے مزدوروں کو مراعات اور سہولیات فراہم کی جائے مگر حکومت کے مسلط کردہ بیوروکریٹ اس ویلفیئر فنڈ کو ذاتی ملکیت کی طرح خرچ کررہے ہیں سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن میں میڈیسن کی خریداری میں کرپشن ڈھکی چھپی بات نہیں ہے سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کی تمام ویلفیئر اسکیمیں عملاً بند ہیں ۔ ڈیتھ گرانٹ کے ہزاروں کیس پڑے ہیں مرنیوالے کارکنوں کے وارث اور بیوائیں دربدر کی ٹھوکریں کھارہی ہیں اسکالر شپ کے چیکس پر بھی رشوت طلب کی جارہی ہے اور جو لوگ یہ فرمائش پوری نہیں کرتے ان کے دستخط شدہ چیک مہینوں پہلے تیارہیں مگر نہیں دیے جارہے ہیں۔ جہیز گرانٹ اور سیونگ مشینوں کی اسکیمیں اوراق پارینہ بن چکی ہیں، لیکن اس کرپشن کے خلاف کوئی شکایت سننے کو تیار نہیں کیونکہ اس میں شاید نیچے سے اوپر تک شراکت داری ہے ۔صرف چند مہینے سعید غنی کے دور میں کرپشن میں کمی نظر آئی لیکن اس کے بعد دوبارہ اس کاروبار میں بہت زیادہ شدت نظر آرہی ہے۔



ہم سمجھتے ہیں کہ مزدور تحریک کی زبوں حالی اور مزدوروں پر ہونے والے مظالم سہ فریقی لیبر کانفرنس سے بھی کم نہیں ہوں گے اس کے لیے ملکی سطح پر ٹریڈ یونین کا مضبوط اور عملی اتحاد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ظہور اعوان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے آئی ایل او میں PC ہوٹل کراچی اور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے مسئلے کو زور و شور سے اٹھایا ہے اور ملکی سطح پر اتحاد قائم کرنے کے لیے پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کو رجسٹرڈ کرواکر جدوجہد کی سرپرستی قبول کی ہے جس میں ملک کی بارہ اہم فیڈریشنیں شامل ہیں اور حالیہ انتخابات میں نور محمد کراچی چیئرمین، قموس گل خٹک حیدرآباد صدر، ظہور اعوان جنرل سیکرٹری، عبدالعزیز عباسی سینئر وائس چیئرمین اور اشرف راجپوت وائس چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام ملحقہ فیڈریشنوں کے عہدیدار بھی اہم عہدوں پر منتخب ہوچکے ہیں۔



پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے حالیہ انتخابات کے بعد 22 اگست 2017 کو کراچی میں GSP پلس کے موضوع پر کنفیڈریشن کی رپورٹ کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ تقریب FES کے عبدالقادر کے تعاون سے ممکن ہوئی جو ہمیشہ مزور تحریکوں کو پروان چڑھانے کے لیے پیش پیش رہتے ہیں۔ ہم کنفیڈریشن کی طرف سے FES کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور تمام شریک صنعت کاروں، مزدور رہنماؤں خصوصاً سابق مشیر محنت سعید غنی کا شکریہ اداکرتے ہیں کہ انہوں نے روایتی مزدور دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت فرمائی اور اپنے زرین خیالات سے شرکائے اجلاس کو آگاہ کیا۔