سال 2016-17ء میں زرعی شعبے نے 3.5 فی صد کے حساب سے ترقی کی جب کہ اس سے پچھلے سال یہ شعبہ مثبت کے بجائے منفی سمت میں چلا گیا تھا۔ فصلوں کی کاشت کے لحاظ سے چار فصلیں زیادہ اہم ہیں جن میں کپاس، گندم، گنا اور چاول ہیں۔ کپاس کی فصل پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے کیوں کہ پاکستان کے اہم ترین صنعتی شعبے ٹیکسٹائل کا خام مال کپاس کی فصل سے ہی حاصل کیا جاتا ہے لیکن سال گزشتہ حکومت کی نااہلی اور بدانتظامی، غیر معیاری بیجوں کی درآمد اور سنڈی کے حملے کی وجہ سے کپاس کی فصل بُری طرح متاثر ہوئی تھی۔ اس سال بھی کپاس کی بوائی کا موسم شروع ہوچکا ہے اور پنجاب کے محکمہ زراعت نے یہ وارننگ جاری کردی ہے کہ اس مرتبہ بھی سنڈی کا حملہ ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کپاس کی پیداوار کا ہدف 140 لاکھ گانٹھوں کے بجائے 126 لاکھ گانٹھیں کردیا گیا ہے۔ کپاس کی 80 فی صد پیداوار پنجاب میں ہوتی ہے لیکن پنجاب اور سندھ کے کسان کپاس کے بجائے گندم اور گنے کی کاشت کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ گندم اور گنے کی ہر سال حکومت ایک امدادی قیمت مقرر کرتی ہے جس کی فصل کا بڑا حصہ حکومت خرید لیتی ہے جب کہ کپاس کے معاملے میں ایسا نہیں ہے اسی لیے اس سال اطلاعات کے مطابق کپاس کی پیداوار کی زمین میں 15 فی صد کمی آگئی ہے۔ اسی طرح پچھلے سال گندم کی پیداوار 24 ملین ٹن تھی اور حکومت نے 130 روپے فی 40 کلو گرام کے حساب سے 7 ملین ٹن گندم خریدی لیکن اس خریداری کے لیے حکومت ایک مخصوص بوری جسے باردانہ کہتے ہیں فراہم کرتی ہے جس پر محکمہ خوراک کی مہر لگی ہوتی ہے۔ سندھ میں چھوٹے کسان بار دانہ ڈھونڈتے رہ گئے جب کہ محکمہ خوراک کے سرکاری اہلکاروں نے بااثر آڑھتیوں اور وڈیروں کو باردانہ پہنچادیا۔ اس طرح حکومتی اسکیم سے دیہی علاقوں کے بڑے بڑے لوگوں نے تو فائدہ اُٹھایا اور چھوٹے اور غریب کسان اپنی فصل کو اُونے پونے داموں فروخت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہی معاملہ گنے کی فصل کا ہے، بااثر شوگر مل مالکان جن کی پہنچ حکومتی ایوانوں تک ہے غریب کسانوں سے گنا خرید لیتے ہیں مگر رقم کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں اور سال سال گزر جاتا ہے فصل کی قیمت ادا نہیں کرتے یہاں تک کہ گنے کے کاشت کاروں کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔
مویشی بانی (Livestock) زراعت کا اہم جز ہے جس کا ملک کی معیشت میں 12 فی صد حصہ ہے اور پندرہ لاکھ خاندان اسی مویشی بانی سے وابستہ ہیں جو زندگی کی بنیادی ضرورتیں اسی سے پورا کرتے ہیں، دوسرے یہ کہ ملک میں گوشت اور دودھ کی فراہمی کا ذریعہ یہی شعبہ ہے پاکستان دودھ اور گوشت کی پیداوار میں دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ایشیا کے دو اہم ممالک انڈیا اور تھائی لینڈ حلال گوشت کی برآمدات میں پاکستان سے آگے ہیں، پاکستان اپنی کوالٹی، پیکنگ اور بین الاقوامی معیارات کو پورا کرکے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو حلال گوشت کی برآمدات میں اضافہ کرکے بھاری زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ عیدالاضحی کے موقعے پر قربانی کے جانوروں کی فراہمی اسی شعبے کے ذریعے ہوتی ہے۔ پچھلے سال 35 لاکھ گائے اور 85 لاکھ بھیڑ اور بکروں کی قربانی کی گئی تھی۔ اس موقعے پر یہ شعبہ ملک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے کا ذریعہ بنتا ہے، اندازہ ہے کہ آنے والی عیدالاضحی کے موقعے پر ملکی معیشت میں 350 ارب روپے کا کاروبار ہوگا جس میں 192 ارب روپے کی گائے، 127 ارب روپے کی بھیڑ اور بکروں کی فروخت اور 22 ارب روپے کا وہ کاروبار شامل ہے جس میں قربانی کے جانوروں کا چارہ، آرائشی سامان، ٹرانسپورٹیشن، قصابوں کی خدمات اور کھالوں کی وصولی شامل ہے۔ اسی طرح یہ شعبہ ملک میں چمڑے کی صنعت کے لیے خام مال کی فراہمی کا ذریعہ بنتا ہے۔
حکومت نے پچھلے سال کھاد کی قیمتوں میں کمی کے لیے زرتلافی کا اعلان کیا تھا، اسی کے ساتھ سیلز ٹیکس کی شرح 17 فی صد کے بجائے 5 فی صد کردی تھی، اس طرح کھاد کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوگئی تھی مگر جن کھاد تیار کرنے والی کمپنیوں کے ذریعے زرتلافی فراہم کی گئی تھی ان کو وہ رقم فراہم نہیں کی گئی۔ اس طرح تقریباً 20 ارب روپے اُن کمپنیوں کے پھنسے ہوئے ہیں، چناں چہ اس سال انہوں نے سستی کھاد کا سلسلہ روک دیا ہے۔ دوسری طرف اس سال زرعی شعبہ کو 600 ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے جو مختلف بینک اور نان بینک مالیاتی ادارے مہیا کریں گے۔ بجٹ 2017-18ء میں ایک ہزار ارب روپے چھوٹے کسانوں کے لیے قرضوں کی مد میں رکھے گئے ہیں، جن پر سود کی شرح 9.9 فی صد رکھی گئی ہے۔
غریب، اَن پڑھ اور بے وسیلہ کسان قرض حاصل کرنے کی کاغذی کارروائی کس طرح پورا کرے گا یہ سمجھ سے باہر ہے۔ جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا یہ تمام مراعات اور سہولتیں زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والی بااثر طبقے، جاگیردار، وڈیرے اور چودھری ہتھیا لیں گے اور غریب کسان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا جسے صرف دو چیزیں چاہئیں ایک تو کم قیمت کھاد، بجلی اور اعلیٰ کوالٹی بیج اور دوسرے اس کی فصل مارکیٹ میں مناسب قیمت میں فروخت ہو اور اسے جلد رقم کی ادائیگی ہوجائے۔
اگر حکومت اِن دونوں چیزوں کی مناسب منصوبہ بندی کرے اور ذمے دار و باصلاحیت عملے کے ذریعے اِن پر عمل درآمد کرادے تو کسانوں کے دن پھر جائیں گے۔