طاقت اور عدالت کا گٹھ جوڑ

289

Edarti LOHمعزول وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے ساتھی مصر ہیں کہ پاناما کیس پر عدالت عظمیٰ کے 5معزز ججوں کا فیصلہ غلط ہے اور غلط فیصلہ تسلیم نہیں کریں گے۔ حالاں کہ وہ فیصلے سے پہلے بارہا کہہ چکے ہیں کہ فیصلہ جو بھی آیا اسے تسلیم کریں گے ۔ بہرحال بار بار اپنا موقف بدلنا ان کا حق ہے۔ تاہم گزشتہ جمعہ کو وکلا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ’’ طاقت اور عدالت‘‘ کا گٹھ جوڑ توڑنا ہوگا۔ طاقت سے ان کی کیا مراد ہے، یہ کوئی چیستان نہیں۔ وہ کھل کر نہیں کہہ سکے کہ ان کے خلاف فیصلے کے پیچھے فوج بھی تھی اور یہ فوج اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ تھا۔ نواز شریف اپنے اندر اتنی ہمت تو پیدا کریں کہ اگر ان کے خیال میں فیصلے میں فوج کا ہاتھ تھا تو کھل کر کہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو خود ہی فرمائیں کہ ’’طاقت‘‘ سے ان کا کیا مطلب ہے اور یہ اشارہ کس طرف ہے۔



کیا نواز شریف اور ان کے حواری یہ نہیں جانتے کہ وہ فوج اور عدالت پر کھل کر الزام تراشی کررہے ہیں جو کسی بھی طرح ان کے فائدے میں نہیں ہے۔ اور اس طرح وہ اپنی مشکلات کو بڑھا رہے ہیں۔ ابھی تو ان کو نیب کا سامنا بھی کرنا ہے۔ معروف قانون دان فروغ نسیم نے بھی یہ مشورہ دیا ہے کہ نواز شریف ججوں کو ناراض نہ کریں بلکہ عدالت میں صحیح طرح اپنا مقدمہ لڑیں۔ میاں نواز شریف اپنے خلاف فیصلے پر تو 28جولائی سے ’’ میں نہ مانوں ‘‘ کی گردان کرہی رہے ہیں اور بین السطور وہ ججوں پر کسی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگا رہے ہیں۔ اب انہوں نے ’’طاقت‘‘ کو بھی گھسیٹ لیا ہے۔ ان سے زیادہ یہ کون جانتا ہوگا کہ پاکستان میں یہ طاقت کتنی مضبوط رہی ہے اور کبھی سامنے آ کر ، کبھی پس پردہ ملک کی پالیسیاں چلاتی رہی ہے۔



پاکستان کے حکمرانوں نے خارجہ پالیسی تو جنرلوں ہی کے حوالے کردی تھی اور آج بھی افغانستان اور کشمیر سمیت کئی خارجہ امور فوج ہی کی نگرانی میں چل رہے ہیں ، زرداری صاحب بھی اس معاملے سے دست بردار ہوگئے تھے۔ نواز شریف صاحب کو اب جو خرابیاں نظر آرہی ہیں اور پارلیمان کی بالادستی کی باتیں کررہے ہیں ، اقتدار میں رہ کر یہ سب کیوں نظر نہیں آیا۔ نواز شریف صاحب تو ایک بار طاقت سے ٹکرانے کا نتیجہ دیکھ چکے ہیں۔ وہ ترکی کے رجب طیب اردوان بننے چلے ہیں جس نے اپنے ملک میں فوج کی طاقت توڑی لیکن اردوان کے ساتھ عوام تھے۔ اورمیاں صاحب اگر جی ٹی روڈ کے مجمع کودیکھ کر سمجھ بیٹھے ہیں کہ عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے تو اس غلط فہمی سے باہر آجائیں۔



وکلا کنونشن سے خطاب میں انہوں نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ وہ وزیر اعظم نہیں بننا چاہتے بلکہ عوام کے حق کی بحالی چاہتے ہیں۔ عوام کے حق سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ عوام کو ضروریات زندگی کی فراہمی کے حق کی بات کررہے ہیں۔ بلکہ یہاں بھی عوام کے حوالے سے اپنے حق کی بات کررہے ہیں کہ عوام نے اپنے ووٹوں سے انہیں منتخب کیا، ان کا یہ حق لوٹایا جائے اوروزارت عظمیٰ سے برطرفی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ عدالتوں پر تنقید کو ان کے حواری یہ کہتے ہیں کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں لیکن فیصلوں پر تنقید ہمارا حق ہے۔ ضرور کیجیے اگر اس سے کوئی فائدہ پہنچ سکے۔