قدرتی مائع گیس۔ ایل این جی

395

ملک میں بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات اور گھٹتے ہوئے قدرتی وسائل اور مہنگے فرنس آئل کی درآمد کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے 2006ء میں ایل این جی(قدرتی مائع گیس) کی درآمد بارے پالیسی بنائی گئی ۔ گزشتہ حکومت کی سست روی کی بناء پر ایل این جی (قدرتی مائع گیس) منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ موجودہ حکومت نے ملک سے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے قطر سے 15سالہ ایل این جی (قدرتی مائع گیس) درآمد کاجو معاہدہ کیا ہے اس کی بدولت گزشتہ دو سال سے لے کر رواں سال تک ایل این جی (قدرتی مائع گیس) فرنس آئل کے مقابلے میں زیادہ موثر اور کارگر ثابت ہوئی ہے اور صنعتوں کو بلا تعطل گیس کی فراہمی ممکن ہوئی۔ ایل این جی فرنس آئل کے مقابلے میں سستا،ماحول دوست اور سازگار ثابت ہو رہی ہے۔ ایل این جی بہتر توانائی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ موجودہ حکومت کی پالیسی بظاہر فرنس آئل کا استعمال کم کرکے تمام تر صنعتی شعبوں اور گھریلو صارفین کے لیے ایل این جی کے ذریعے سے گیس کے استعمال کو ترجیح دے دہی ہے۔
ملک کو معاشی استحکام دینے کے لیے توانائی کے شعبے میں فرنس آئل کے بجائے ایل این جی (قدرتی مائع گیس) کا استعمال زیادہ فائدہ مند ہے۔ ملک میں گیس کے ذخائر روز بروز کم ہو رہے ہیں اور گیس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے جو سردیوں میں مزید سنگین صورتِ حال اختیا ر کر لیتا ہے ۔ اس کا مناسب اور بہتر حل یہ ہے کہ ملک میں ایل این جی کے استعمال کو فروغ دیا جائے۔
پورٹ قاسم ایل این جی ٹرمینل سے ملک بھر میں گیس فراہم کی جا رہی ہے جس کی بدولت توانائی کے شعبوں میں نمایاں بہتری سامنے آئی ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ دوسرا ایل این جی ٹرمینل جلد لگائے جانے کا امکان ہے ۔
مجموعی طور پر ملک بھر میں سنگین توانائی بحران نظر آرہا ہے حکومت کو چاہیے کہ ملک میں کم سے کم 4سے 5ایل این جی ٹرمنلز قائم کرے تاکہ توانائی بحران پر جلد از جلد قابو پایا جائے اور صنعتی شعبوں اور گھریلو صارفین کو بلا تعطل گیس اور بجلی کی فراہی کو یقینی بنایا جائے۔
محمد عبیر خان،سَنی آرکیڈ ، بلاک 7، گلشن اقبال،کراچی