چائنا سلامتی کونسل میں پاکستان کو قبول کرنے والا پہلا ملک تھا، سب سے پہلا ملک جس کی دوستی کی مثال شاہراہ قراقرم ہے۔ پھر تجارت صنعت و حرفت اور سائنس میں ہر طرح سے پاکستان کا معاون۔ چینی لوگ بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں، آبادی ڈیڑھ دو سو کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت تیزی سے ترقی کرتا ہوا ملک ہے، صنعت اور تجارت میں ساری دنیا کی مارکیٹوں پر چھا گیا ہے۔ چینی لوگ بہت محنتی ہیں۔ ذرائع آمدورفت کے لیے سائیکل کی سواری کو ترجیح دیتے ہیں ان کے وزیراعظم بھی کسی دور میں سائیکل پر جایا کرتے تھے۔ چین اور پاکستان کے اقتصادی ترقی کے جتنے بھی معاہدے ہوئے ہیں کامیاب گئے، آج کل ’’سی پیک‘‘ کا معاہدہ ہے۔ جس میں چائنا سڑکوں کا جال بچھا کر دنیا کو جوڑ دینا چاہتا ہے، تجارت بڑھے گی، تجارتی سامان لانا لے جانا آسان اور اس کی مرمت میں سارا سامان چائنا اپنے استعمال کرے گا۔ ان سڑکوں کی حفاظتی چوکیوں پر چائنا کی فوج ہوگی، تجارت اس کی بڑھے گی، معیشت اس کی بڑھے گی، مزدور بھی چائنا کے، انجینئر بھی چائنا کے تو ہمیں کیا ملے گا؟ سیاستدان حکمران ہمیں سنہرے خواب دکھا رہے ہیں، چائنز دھڑا دھڑ یہاں آرہے ہیں، ہم کیا کریں گے؟ زرمبادلہ ہمارا باہر جائے گا تجارتی سامان چائنا سے آئے گا تجارت وہ کرے گا ہمیں کیا ملے گا؟ ہم کیوں اتنی خوشیاں منارہے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں آکر کیا کیا تھا؟ ہم کیا بھول گئے۔ ایران، افغانستان اور پاکستان میں سی پیک کا منصوبہ کام کرے گا، راہداری پاکستان دے رہا ہے، کیوں؟ ہمارے سیاستدان تماشا دیکھ رہے ہیں۔ چائینز لڑکیاں گلف مارکیٹ اور ڈیفنس بازار میں کھڑی کھلم کھلا موبائل بیچ رہی ہیں۔ منچلے لڑکے بائیک پر سوار کھڑے ہو کر موبائل لے رہے ہیں، ساتھ میں سیلفیاں بنارہے ہیں تو کیا کسی غیر ملکی کو یہ اجازت ہونی چاہیے باڑہ مارکیٹ بنادیا۔ پاکستان پر تہذیبی تجارتی اور معیشتی یلغار کیوں، مغربی لابی کے غلام حکمران اب کیا چاہتے ہیں۔ ہم یہ کیوں نہیں یاد رکھتے کہ چائنا کا صوبہ یا علاقہ سینک یانگ جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں انہیں روزے رکھنے کی اجازت نہیں۔ ائرپورٹ جانے کی اجازت نہیں، وہ ہمارے ملک میں بلا خوف و خطرہ آتے جاتے ہیں وہاں کے مسلمانوں پر پابندی کیوں۔
خدارا سیاستدانوں ہماری آزادی سے مت کھیلیں اپنی جائدادیں اور کارخانے، مل تو دشمنوں کے ملکوں میں لگائے بیٹھے ہیں، خود تو وہاں بھاگ جائیں گے ہمیں ہلاکو اور چنگیز کی نسل کے لوگوں کے سپرد کردیں گے، ہمیں ایسی ترقی کی ضرورت نہیں، ہمیں اپنے ملک کی سرحدوح کی حفاظت چاہیے۔
صبا احمد