ٹرمپ کے افغان پلان میں بھارت کا کردار

453

baba-alifاکیس اگست کی صدرٹرمپ کی تقریر ’’افغانستان اور جنوبی ایشیا میں آگے بڑھنے کا راستہ‘‘ دراصل بند گلی کی جانب امریکا کی مزید پیش رفت ہے۔ 16 برس سے جاری جنگ میں افغان طالبان کے ہاتھوں مارے جانے والے امریکی فوجیوں کی یاد میں کسی میوزیم کا تصور اگر امریکیوں کے زیر غور ہے تو صدر ٹرمپ کی حالیہ پالیسی کے بعد انھیں اس میں تو سیع کرلینی چاہیے۔ ورجینیا کے شہرآر لنگٹن کے ملٹری بیس سے صدر ٹرمپ کے بیان میں کچھ بھی نیا نہیں ہے سوائے اس کے کہ افغانستان اور پاکستان میں امریکا کو کچھ اور جارح ہونا چاہیے۔ اس پالیسی سے امریکا کے سنگین اور خونیں جرائم اور عالم اسلام میں اس کے لیے حقارت میں اضافہ ہی ہوگا۔ صدر ٹرمپ کے افغان پلان سے افغان طالبان کے اس عزم کو مزید تقویت ملی ہے کہ افغانستان سے کسی سپرپاور کو صحیح سلامت نہیں جانے دینا ہے۔



صدر ٹرمپ ایک ہمہ صفت پاگل محسوس ہوتے ہیں، اول جب وہ اس گمان میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ چار ہزار امریکی افواج کے اضافے سے افغانستان میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ دوم جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو بھارت کی بالادستی تسلیم کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ بھارت نہ تو اس قسم کی بالا دستی کا حق رکھتا ہے اور نہ ہی امریکا کی تمام تر تھپکیوں اور امداد کے باوجود وہ اسے حاصل کرسکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے بھارت کی مدح سرائی کی جو طرز سعودی عرب میں اپنائی تھی اس تقریر میں بھی اسے برقرار رکھتے ہوئے کہا ’’ہم افغانستان کے استحکام میں بھارت کی اہم کاوشوں کی تعریف کرتے ہیں۔ بھارت امریکا کے ساتھ تجارت کرکے اربوں ڈالر کماتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں وہ افغانستان میں ہماری مزید مدد کرے خصوصاً معاشی مدد اور تعمیر وترقی کے میدان میں۔‘‘



یہ پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھارت کا کوئی کردار نہیں۔ جب کہ پاکستان کی معیشت کو اس جنگ میں پونے دوسو کھرب روپے کا نقصان پہنچا اس کے ساٹھ ہزار سے زائد شہری شہید ہوئے۔ اس کے باوجود آج افغانستان میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں سوائے اس کے کہ وہاں ہونے والی دہشت گرد کاروائیوں میں پاکستان کو ملوث کیا جائے۔ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کررہا ہے، جس میں اسے امریکا کی سپورٹ حاصل ہے۔ امریکا چاہتا ہے افغانستان میں بھارت کے اس کردار کو پاکستان نہ صرف تسلیم کرے بلکہ کسی بھی قسم کی مزاحمت سے بھی گریز کرے۔ اس معاملے میں امریکا کے دباؤ میں آنے کا مطلب یہ ہے کہ جب پاکستان کی کوششوں سے افغانستان جو وسطی ایشیا کا دروازہ ہے، مستحکم ہوجائے تو اس کے ایک ٹریلین ڈالرسے زائد مالیت کے معدنی ذخائر بھارت کے سپرد کردیے جائیں، تاکہ ان سے استفادہ کرکے بھارت پاکستان پر اپنی بالا دستی قائم کرسکے۔



امریکا سے ہماری قربت کا بنیادی سبب بھارت کا خوف تھا، یہ کہ بھارت ہم سے چھ سات گنا بڑا ہے۔ بھارت سے پاکستان کا دفاع کسی بڑی طاقت کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ سوچ کر ہم امریکا کے پاس چلے گئے جو پہلے دن سے بھارت کی محبت میں گرفتار لیکن اس کے عدم التفات سے پریشان تھا۔ اس نے بھارت کو رجھانے اور اپنی طرف مائل کرنے کے لیے پاکستان کو لیور کے طور پر استعمال کیا۔ پچاس کے عشرے کے آخری برسوں میں جن دنوں ہم جان داستاں تھے ان دنوں بھی امریکا نے بھارت کے غیرجانب دارانہ پا لیسی پر مضبوطی سے جمے رہنے کے باوجود اسے بڑے پیمانے پر اقتصادی امداد کی پیشکش کی۔ کمیو نسٹ چین کے خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکی پالیسیوں میں اس وقت سے بھارت تر جیح اور ناگزیر تھا۔ لداخ اور نیفا میں بھارت کو چین سے عبرتناک شکست ہوئی تو امریکا کے فوری ردعمل کی وجہ سے اس کے مغربی اتحادیوں نے بھارت کو فوجی امداد دینا شروع کردی۔



اس سے قبل چین بھارت جنگ کے دوران امریکی صدر کینیڈی نے صدر ایوب کو مجبور کیا کہ وہ نہرو کو یقین دلائیں کہ پاکستان سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا۔ یوں پاکستان نے کشمیر کے حصول کا ایک نادر موقع کھو دیا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی بھارت کے مفاد میں عین حالت جنگ میں امریکا نے پاکستان پر اسلحہ کی پابندی عائد کردی۔ 1971ء میں امریکی انتظامیہ مکمل طور بھارت کی پشت پر تھی۔ پہلے افغان جہاد کے بعد خطے کی صورت حال کو سنبھالنے کے لیے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا اور آج پھر اپنا مطلب نکل جا نے کے بعد ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے لیے بھارت کو ہماری پشت پر لا کر بٹھا دیا گیا ہے۔ اعلیٰ ترین انٹیلی جنس ایجنسیوں اور مضبوط ترین فوجی اداروں کے باوجود ہماری پے درپے شکستوں کی وجہ دراصل اس نظریے کی شکست ہے کہ بھارت کے مقابل پاکستان کے دفاع کے لیے ہمیں امریکا کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔ نہ جانے ہم اس بات کا ادراک کیوں نہیں کر پارہے ہیں کہ خطے میں امریکا کا مفاد بھارت کے ذریعے پورا ہوتا ہے اس لیے گزشتہ ستر سال سے امریکا نے ہر اہم موقعے پر بھارت کا ساتھ دیا اور پاکستان کو بھارت سے تعلقات کے لیے استعمال کیا۔



اس وقت خطے میں امریکا کا منصوبہ یہ ہے کہ بھارت کو بالادست قوت کے طور پر ابھرنے کا موقع دیا جائے اور پاکستان کی قابل ذکر صلاحیتوں کو محدود کیا جائے۔ 19اپریل 2016 کو امریکی سیکرٹری دفاع ایش کارٹر نے کہا تھا ’’امریکا کا بھارت کے ساتھ ایک عالمی ایجنڈا ہے جس میں تما م امور شامل ہیں جب کہ پاکستان کے ساتھ تعلق صرف دہشت گردی اور افغانستان کے حوالے سے ہے۔‘‘ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان اس امریکی کوشش کی مزاحمت کرتا لیکن ہم امریکا کی غلامی کے ساتھ ساتھ بھارت کی چاکری میں بھی لگ گئے۔ تحمل کی پالیسی کے نام پر ہم صرف دفاعی اقدامات تک محدود ہوکر رہ گئے۔ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی گولہ باری کے جواب میں ہماری طرف سے محض اتنی فائرنگ کی جاتی ہے کہ ردعمل کی خانہ پری کی جاسکے اور بھارت کو کوئی قابل ذکر نقصان نہ پہنچے۔



افغانستان کے باب میں امریکا یہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ افغان طالبان کو امریکا سے مذاکرات پر مجبور کیا جائے تاکہ مذاکرات کے جال میں پھنس کر وہ ناکام ہوجائیں۔ جب کہ وہ میدان جنگ میں فتحیاب ہیں اور 16برس بعد بھی بے جگری سے امریکی فوجیوں کو شکار کررہے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ افغان جنرل نے ایک طالبان جنگجو کی داستان سناتے ہوئے کہا کہ اس کے چھ بیٹے ہیں۔ ایک بیٹے کی شہادت کے بعد دوسرا بیٹا کلاشنکوف اٹھا لیتا۔ یہاں تک کہ چھ کے چھ بیٹے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔ جس کے بعد باپ نے کلا شنکوف اٹھالی۔ ایسے لوگوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ ایسے لوگ کس طرح مذاکرات کے جھانسے میں آسکتے ہیں۔ جہاں مرنے والوں کی جگہ لینے کے لیے دوسرے مجاہد منتظر ہوں۔