کراچی کے پارکس کہاں گئے ؟؟

773

نعمت اللہ خان دور کے18ماڈل پارکس اور3 سو سے زیادہ چھوٹے بڑے پارکس کچرا کنڈی بنے ہوئے ہیں ۔ کھیلنے کے میدان ختم ہوتے جار ہے ہیں، چھوٹے پارکس میں تجارتی سرگرمیاں زیادہ ہیں
باغ ابنِ قاسم اُجڑا پڑا ہے۔ عسکری پارک ویرانے میں تبدیل ہو چکا۔ صرف تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جہانگیر پارک میں منشیات والوں کا بسیرا ہے،ہل پارک تباہ ہے ، عزیز بھٹی پارک کی جھیلیں خشک ہو گئی ہیں
منیر عقیل انصاری
میئر کراچی کو منتخب ہو ئے ایک سال ہو نے کو ہے ،شہر کے اجڑے پارکس میں تاحال بہتری کا کام شروع نہیں ہو سکا۔ بلد یہ عظمی کر اچی کے محکمہ پارک کی نا اہلی کے با عث سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور نظا مت میں بنا ئے گئے 18ماڈل پارک اور 3سو کے قر یب چھو تے بڑے پارکس کچراکنڈ یوں میں تبد یل ہو گئے ہے۔پا رک میں منشیا ت کے عادی افراد،پارکنگ ما فیااور پتھاریداروں نے قبضہ کر لیا،میئر کراچی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے شہری تفر یح مقاما ت سے محروم ہو گئے ہیں۔کراچی میں اب کھیل کے میدان اور پارکس تقریباً ختم ہی ہوچکے ہیں، جو چند ہیں تو ان میں جھولے وغیرہ لگا کر کمرشل بنادیا گیا ہے۔جس سے عوام کے تفریح کے مواقع کم ہوگئے ہیں۔ اسکولز اور کالجز میں بھی میدان دستیاب نہیں ہو نے کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کی صحت مندانہ سرگرمیاں ختم ہوگئی ہیں اور عموماً یہ نسل کسی ڈبو (کیرم بورڈ) یا اسنوکر اور چائے کے ہوٹلوں پر وقت گزارتی نظر آتی ہے کہ جہاں غلط صحبت اور جرائم کے پنپنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔کراچی کی عوام کے اکثریت کو گرمی اور لوڈشیڈنگ میں گھر کے قریب کسی ایسے پارک کی سہولت بھی میسر نہیں جہاں وہ کچھ دیر سکون کا سانس لے سکیں۔



سا بق سٹی نا ظم نعمت اللہ خان کے دور میں شہریوں کو تفریح کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے غرض سے شہر کے مختلف علاقوں میں قطعات اراضی جو پارکس مختص کیے گئے تھے کچرا کنڈیوں میں تبدیل ہو چکے تھے ان جگہوں کا انتخاب کرکے انہیں ماڈل پارکس میں تبدیل کیا گیا تھا۔پہلا ماڈل پارک میٹروویل نمبر 4 سائٹ میں تعمیر کیا اس پارک کا رقبہ 52 ہزار اسکوائر فٹ تھا، دوسرا ماڈل پارک فیڈرل بی ایریا بلاک 14 میں تعمیر کیا اس پارک کا رقبہ 82 ہزار 7 سو 5 اسکوائر فٹ تھا، تیسرا ماڈل پارک اسکائوٹ کالونی میٹروول گلشن اقبال میں تعمیر کیا، اس پارک کا رقبہ 1 لاکھ 12سو اسکوائر فٹ تھا۔ چوتھا ماڈل پارک شاہ فیصل کالونی میں تعمیر کیا یہ پارک 38 ہزار 10 اسکوائر فٹ کے رقبے پر مشتمل تھا۔ پانچواں ماڈل پارک ناظم آباد انکوائری آفس ناظم آباد میں تعمیر کیا اور اس پارک کا رقبہ 10 لاکھ 16 ہزار 4 سو اسکوائر فٹ تھا۔ چھٹا ماڈل پارک سرجانی ٹائون میں تعمیر کیا اس پارک کا کل رقبہ



59 ہزار 2 سو 20 اسکوائر فٹ تھا، ساتواں ماڈل پارک کورنگی میں تعمیر کیا اس پارک کا رقبہ 1 لاکھ 20 سو اسکوائر فٹ تھا۔ آٹھواں ماڈل پارک لانڈھی میں تعمیر کیا گیا تھا نواں ماڈل پارک ملیر اور دسواں ماڈل پارک نارتھ ناظم آباد کراچی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اسی طر ح کے3سو مز ید چھوٹے بڑے پا ر کس جو کر اچی کے مختلف علا قوں میں تعمیر کیے گئے تھے ان تمام پارکس کی صورت حال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ ان تمام پارکس میں منشیات فروشوں کا ڈیرہ ہے۔ پارکس کے اطراف میں لگے جنگلے غائب ہوگئے ہیں۔ بعض پا رکس میں ٹرانسپورٹ مافیا نے غیرقانونی اڈے قائم کرلیے ہیں۔ جبکہ پارکس میں تعینا تی کے نا م پر ہز اروں رو پے بلد یہ کہ ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں ادا کیے جارہے ہیں،کر اچی کے مختلف علا قوں میں موجو دپارکس کی چار دیواری پر نصب لوہے کی قیمتی گرل کو نکال کر کوڑیوں کے مول فروخت کردیا گیا ہے جبکہ پارک میں منشیات کے عادی افراد، پارکنگ مافیا اور پتھاریداروں نے قبضہ کرلیا ہے، عدالت عظمی کے واضح احکامات کے باوجود محکمہ پارکس کے افسران تجاوزات کیخلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں،شہر کر اچی کے بیشتر پارکس میں شریف اور مہذب لوگوں کا آنا ناممکن ہوگیا ہے ۔



بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت کروڑوں روپے کی لاگت سے کلفٹن میں تعمیر کیا جانے والا باغ ابن قاسم مکمل طور پر اجڑگیا،وسیع و عریض رقبے پر تعمیر کیا جانے والا پارک اب ریگستان کا منظر پیش کر رہا ہے پارک میں گھاس مکمل طور پر غائب ہوگئی ہے اور تمام دن گرد اڑتی نظرآ تی ہے۔جرائم پیشہ افراد کی منفی سرگرمیوں کے باعث شہریوں نے پارک میں آنا بند کردیا ہے اب پارک میں جگہ جگہ جرائم پیشہ افراد بیٹھے نظرآتے ہیں جوبھولے بھٹکے اس پارک میں آنے والے شریف لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں، باغ ابن قاسم ایک سو تیس ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے،اس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے 27 فروری 2007ء کو اس کا افتتاح کیا تھا، جس کی تعمیر پر ایک ارب دس کروڑ روپے کی رقم خرچ کی گئی تھی، یہ تین لاکھ افراد کی گنجائش کا حامل پارک ہے، 2005ء میں اس کو پلان کیا گیا ، بلدیہ عظمیٰ کراچی نے 2006ء میں اس کی تعمیر کا آغازکیا ، 40ممالک کے سفارتکار اس پارک کی تعمیر دیکھنے کے لیے آئے،اس وقت کے صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف بھی تین مرتبہ اس کے کام کا معائنہ کرنے آئے تھے۔ایک سال کی مدت میں یہ پارک مکمل کیا گیا،اس پارک میں بیٹھنے کے لیے تین ہزارنشستیں بنائی گئیں تھی۔



باغ ابن قاسم میں بیس چھتریاں، پندرہ سو برقی قمقمے ، 24لائٹ ٹاورزاور ارینہ لائٹس بھی لگا گئی ہیں، باغ میں تین ہزار ڈسٹ بن نصب تھے ، بچوں کے لیے دوایکڑرقبے پرامیوزمنٹ پارک بھی تعمیرکیا گیا ، جس میں جھولے اور ہزاروں کی تعداد میں پودے لگا ئے گئے تھے جو اب مرجھا گئے ہیں، ۔آج سے چند سال قبل اس پارک میں اسٹریٹ لائٹس روشن ہوتی تھیں اور صفائی ستھرائی کا خاص انتظام ہوتا تھا جبکہ سیکیورٹی پر بھی عملہ مامور تھا لیکن اب اس پارک میں اسٹریٹ لائٹس روشن نہیں ہوتی ہیں اور رات کے اوقات میں یہ پارک اندھیرے میں ڈوبا ہوتا ہے۔ 130 ایکڑ رقبے پر محیط باغ ابن قاسم میں انٹری فیس نہیں ہے مگر یہاں پارک کے اطراف گاڑیاں پارک کرنے والوں سے کے ایم سی چارجڈ پارکنگ کا عملہ 30 روپے فی گاڑی طویل عرصے سے وصول کررہا ہے باغ ابن قاسم کی سیکورٹی مناسب نہ ہونے کے باعث فیملیز اندر جانے سے گھبراتی ہیں ۔کراچی کا تاریخی ’’جہانگیر پارک‘‘ بلدیاتی اداروں کی غفلت کے باعث اجڑا ہوا ہے، پارک کی گھاس ختم ہو گئی ہے اور وہ کسی ویران میدان کا منظر پیش کر رہا ہے۔



صدر میں واقع کئی ایکڑ رقبے پر مشتمل جہانگیر پارک کا شمار کراچی شہر کے قدیم پارکوں میں ہوتا ہے۔ ماضی میں یہ پارک بہت خوبصورت ہوتا تھا۔ اس پارک کے بیچوں بیچ بنائے گئے تالاب میں بطخوں اور کے جوڑے تیرا کرتے تھے اور یہاں شام کے وقت لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ آیا کرتے تھے ۔ اب یہ پارک اجڑا ہوا ہے، یہاں عورتوں اور بچوں نے عرصے سے آنا بند کر دیا ہے کیونکہ دن بھر یہاں نشہ کرنے والے یا بے گھر لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ پارک کے دو اطراف مختلف کیبنوں کی تعمیر کے باعث پارک کی خوبصورتی ختم ہو گئی ہے۔ کراچی کے شہریوں کے لیے پی ای سی ایچ ایس کے علاقے میں ایک اونچی پہاڑی پر ’’ہل پارک‘‘ کے نام سے پارک کے ڈی اے نے بنایا تھا۔ تقریباً 61 ایکڑ رقبے پر مشتمل یہ پارک بعد ازاں بلدیہ عظمیٰ کے حوالے کر دیا گیا۔ کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد اہل خانہ کے ساتھ سیر و تفریح کرنے یہاں آتی تھی، اونچائی پر واقع ایک چوٹی سے شہر کا نظارہ کرتی، پارک میں ایک چھوٹی سی جھیل بھی ہے۔ امیوزمنٹ پارک اور پلے لینڈ بھی ہے۔



دوسرے پارکوں کی طرح ہل پارک کو بھی پانی کی قلت کا سامنا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں واقع تالاب میں پرانا سڑا ہوا پانی ہی پڑا رہتا ہے اور بچوں کے جھولوں کے کارنر کی گھاس بھی جگہ جگہ سے اجڑی ہوئی ہے۔ ہل پارک بہت خوبصورت اور ہرا بھرا پارک تھا جو اب اجڑتا جا رہا ہے اور اس میں پہلے جیسی بات نہیں رہی۔یہی حال سفاری پارک کا ہے، یہ رقبے کے لحاظ سے کراچی کا ایک بڑا پارک ہے۔ پارک میں دو اونچی پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان ایک گہری گھاٹی موجود ہے۔ ایک حصے میں ساڑھے سات لاکھ گیلن پانی کی گنجائش والی جھیل بھی موجود ہے، جس میں آبی پرندے بڑی تعداد میں مو جود ہے ۔ پارک میں جگہ جگہ جنگلی درخت بھی موجود ہیں جو پارک کے حسن کو متاثر کرتے ہیں، اب صورت حال یہ ہے کہ سفاری پارک بھی اپنی اصل خوبصورتی کھوچکاہے۔ اسی طرح یو ینو رسٹی روڈ پر وفا قی اردو یو نیو رسٹی کے نزدیک عزیز بھٹی پارک کا شمار ایک زمانے میں کراچی شہر کے خوبصورت ترین اور وسیع و عریض پارکوں میں ہوتا تھا۔ اس پارک میں دو جھیلیں تھیں، جن میں سے ایک خاصی بڑی تھی۔ ان جھیلوں میں خوبصورت آبی پرندے بھی رکھے گئے تھے اور کشتی رانی کا انتظام بھی تھا۔



ابتدائی دنوں میں یہاں شہریوں کی بہت بڑی تعداد نہ صرف تفریح کے لیے بلکہ پکنک منانے آتی تھی، مگر عرصہ ہوا اس کی دونوں جھیلیں خشک ہو چکی ہیں۔ صفائی کا انتطام ناقص ہے یہاں آنے والوں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں بہت کم رہ گئی ہے۔ پارک کی خوبصورتی بھی اب پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔پرانی سبزی منڈی پر قا ئم عسکر ی پا رک تفر یح گاہ کے بجا ئے تجا رتی سر گر میوں کا مرکز بن گیا، پابند ی کے با وجود پا رک کو شادی بیاہ اور دیگر تقر یبات کے لئے استعما ل کیا جا رہا ہے، جبکہ پا رک کو رہا ئشی منصوبے میں تبدیل کر نے کی منصوبہ بند ی کی جا رہی ہے، سا بق سٹی نا ظم نعمت اللہ خا ن کے دور میں کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جا نے والا عسکری پا رک کا ایک حصہ شادی بینکویٹ اور بقیہ آدھے حصہ عسکری شادی باغ میں تبدیل ہوچکا ہے ،



کر اچی کے شہر یو ں کو تفر یح کی سہو لیا ت مہیا کر نے کے لئے پرا نی سبزی منڈی کو ختم کر کہ عسکری پا رک بنا یا گیا تھا، کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیرکیا جانے والا عسکری پا رک تباہی کی جانب گامزن ہے ۔ مرمت اور منا سب دیکھ بھال نہ ہو نے کی وجہ سے اپنی خوبصورتی کھوچکا ہے، گھاس سوکھ گئی درخت مرجھا گئے اور لائٹس زیادہ تر خراب ہونے کے باعث عسکر ی پا رک را ت میں ایک ویرانے کا منظر پیش کر تاہے۔پا رک میں نصب کیے جانے والے بینچ، واکنگ پاتھ، کینوپی مختلف اقسام کے جھو لے انتظا میہ کی عدم تو جہی کے با عث ٹو ٹ پھوٹ اور بوسیدگی کا شکا ر نظرآتے ہیں۔ عسکری پارک کے دو حصوں پر روزانہ کی بنیا د پر شا دی کی تقر یبا ت کا سلسلہ جاری ہے،پا رک میں مختلف تقر یبا ت کے دوران بچ جا نے والے کھا نوں کی با قیا ت پھینکے جا نے کی وجہ سے بلی ، کتے اور چو ہوں سمیت مختلف قسم کے کیڑے مکو ڑوں کی بہتات ہو چکی ہے۔



و اضح رہے کے یونیورسٹی روڈ پرانی سبزی منڈی کے مقام پر 26اگست2005 میںسا بق صدر جنرل پرویز مشرف نے عسکری پارک کا افتتاح کیا تھا۔دوسری جانب وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو کا کہنا ہے کہ عسکری پارک پرانی سبزی منڈی میں اگر سندھ حکومت کے زیر انتظام زمین پر کسی قسم کی کوئی تجارتی سرگرمیاں کی جا رہی ہیں تو اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا ۔کراچی میں اس طرح کے کئی پارک ہیں جو بلدیاتی اداروں کی عدم توجہی کے باعث اجڑ گئے ہیں، یہ اجڑتے پارک جو کبھی شہر کی خوبصورتی میں اضافے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو تفریح بہم پہنچاتے تھے۔ پارکوں اور باغات کی مناسب دیکھ بھال نہ ہو نے کی وجہ سے سرسبز و شاداب پارک اجڑ رہے ہیں۔