انیس برس کیوں ضائع کیے

301

Edarti LOHسابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کو راولپنڈی کی خصوصی احتساب عدالت نے آخری کرپشن ریفرنس سے بھی بری کردیا، ان کے خلاف 1998ء میں اربوں روپے کے غیر قانونی اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ اس دور ان نیب نے 4 تفتیشی افسر تبدیل کیے، 5 تحقیقاتی رپورٹس عدالت میں پیش کی گئی اور 40 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے مگر 19 برس میں الزامات ثابت نہ ہوسکے۔ احتساب عدالت کا فیصلہ ہے کہ ریفرنس کی دستاویزات فوٹو اسٹیٹ نقول پر مشتمل ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اس فیصلے پر پیپلزپارٹی اور آصف زرداری صاحب بہت خوش ہیں ایک طرف میاں نواز شریف کے خلاف نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا عدالتی حکم ملا ہوا ہے دوسری جانب میاں نواز شریف اس حکم کو مسترد کررہے ہیں اور اب نیب نے زبردست فیصلہ دیا ہے 19 سال بعد نیب کو پتا چلا کہ ریفرنس کی دستاویزات فوٹو اسٹیٹ پر مشتمل ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔



اس فیصلے پر تو نیب کے خلاف ریفرنس بنتا ہے کہ پھر انھوں نے 19 برس کیوں ضایع کیے۔ ایک لمحے میں یہ حکم جاری ہونا چاہیے تھا کہ فوٹو اسٹیٹ پر مشتمل دستاویزات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں یہ قبول کرکے 19 برس تک ریفرنس کیوں چلایاگیا گواہوں کے بیانات اجلاسوں پر اور نہ معلوم کتنے سفری اخراجات کیے گئے ہوں گے۔ اور 19 برس گزرنے کے بعد محض اس بنیاد پر ریفرنس کو مسترد کیا جانا نہایت عجیب بات ہے لیکن جس ملک میں عدالت عظمیٰ تنخواہ وصول نہ کرنے پر میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دے سکتی ہے تو وہاں فوٹو اسٹیٹ پر 19 سال ریفرنس چلتا رہنا بھی کوئی حیرت انگیز بات نہیں۔ اس فیصلے کے اثرات بہت دور رس ہوں گے۔ اس کا ایک اثر تو یہ ہوا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو نیب کی طرف سے ایک سکون کا سانس نصیب ہوا ہے اور سابق صدر کی جانب سے میاں نواز شریف کی سیاسی حمایت کے امکانات کو کم کردیاگیا ہے۔ یہ بات تو بعد میں معلوم ہوگی کہ یہ بھی کوئی سودے بازی ہے یا محض اتفاق ہے کہ ادھر نیب کو جے آئی ٹی ارکان کے بیان قلمبند کرنے اور میاں نواز شریف کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی جلدی ہے اور ادھر 19 سال پرانے مقدمے کا فیصلہ آصف زرداری کے حق میں آگیا۔



نیب ریفرنس اور میاں نواز شریف کیس میں مماثلت نہیں بلکہ دونوں میں بہت مختلف چیزیں ہیں۔ آصف زرداری صاحب پر اربوں روپے کے غیر قانونی اثاثے بنانے کا الزام تھا۔ جب کہ میاں صاحب پر ایک قانونی متنازعہ اثاثہ چھپانے کا الزام ہے۔ آصف زرداری صاحب اس ریفرنس کے بعد خود صدر رہ چکے ہیں اور پیپلزپارٹی نے 5 برس حکمرانی کی ہے اس دور میں نیب کی وہ حیثیت نہیں تھی جو آج ہے اس امر کی کون تحقیقات کرے گا کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اور جنرل پرویز کے ساتھ این آر او میں کیا کیا معاملات طے پائے تھے۔ پی پی دور میں نیب کے ریکارڈ میں کیا کیا رد و بدل کیا گیا، یقیناًپیپلزپارٹی خاموش تو نہیں بیٹھی رہی ہوگی اس نے تو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف عدالتی فیصلے کو عدالتی قتل ثابت کرنے کے لیے بڑی محنت کی تو پھر اپنے سربراہ آصف زرداری کے مقدمے کی دستاویزات اور ریکارڈ کے حوالے سے وہ کیونکر غیر متعلق رہ سکتی ہے۔



بہر حال نیب ریفرنس نے جہاں بظاہر نواز شریف کو دھچکا پہنچایا ہے وہیں ایک راستہ بھی دکھایا ہے کہ پندرہ بیس سال گزار لو اس دوران ایک مرتبہ مسلم لیگ ن کی حکومت اور گزر جائے پھر 2025ء یا 2030ء میں قوم یہ خبر سنے گی کہ محض اس مفروضے پر کسی کو نا اہل قرار نہیں دیا جاسکتا کہ اس نے ا پنے بیٹے سے جو تنخواہ وصول نہیں کی تھی وہ اثاثہ ہے اور بات ختم۔ ایسا لگ بھی رہا ہے کہ مسلم لیگ ن اور نواز شریف صاحب کو جو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے وہ ان کی پارٹی کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت دلانے کی کوشش ہے بلکہ اس سلسلے میں پوری معاونت بھی کی جارہی ہے۔ فوج، عدلیہ اور تمام اداروں کے بارے میں نہایت قابل اعتراض جملے بڑی آسانی سے کہے جارہے ہیں اور انہیں اس سے زیادہ آسانی سے ہضم کیا جارہاہے۔ ورنہ تو ایک سوال اٹھانے پر افسر تعلقات عامہ برہم ہوگئے تھے اور غداری کی اسناد تقسیم کرنے لگے تھے۔ تمام اداروں کی خاموشی تو یہی بتارہی ہے کہ میاں صاحب کو سزا نہیں دی گئی ہے بلکہ ن لیگ کی لانڈرنگ کی گئی ہے۔دو تہائی اکثریت دلوانے کے بعد کیا کام کروانا ہے وہ بعد میں بتایا جائے گا۔