چھ ستمبر کے نام

644
نسیم بیگم، عجب خان کالونی
ہر قوم کی تعمیر نو میں اس کی تاریخ ایک اہم حصہ لیتی ہے۔ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کو سامنے رکھ کر قومیں اپنے ماضی اور حال کا موازنہ کرتی ہیں اور یہی موازنہ ان کے مستقبل کا راستہ تیار کرتا ہے۔ ماضی کی یاد، مستقبل کی اُمنگوں میں تبدیل ہو کر ایک قوم کے لیے ترقی کا زینہ بن سکتی ہے اور ماضی کے روشن زمانے پر بے علمی کے نقاب ڈالنے والی قوم کے لیے مستقبل کے راستے بھی تاریک ہوجاتے ہیں۔ آج ہمارے ملک میں قومیت، فرقہ واریت اور لسانیت کے نام پر جو نفرتیں پھیلائی گئی ہیں ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو ان کے تابناک ماضی سے آگاہ کیا جائے۔ وہ 6 ستمبر کی ایک صبح تھی اور پاکستان کو بنے ہوئے ابھی صرف 18 سال ہی ہوئے تھے جب دشمن بھارت نے اپنی پوری عسکری قوت کے ساتھ پاکستان پر شب خون مارا اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا جب مسلمان ماؤں کی بہادر اولاد دشمنوں کی گھناؤنے اور مکروہ سازشوں سے ٹکرا گئے۔ صدرِ پاکستان کی مختصر نشری تقریر سنتے ہی پورے ملک میں اتحاد و یکجہتی کی لہر دوڑ گئی جس نے پوری قوم کو یکجان اور یک زبان کردیا۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا تھا ’’بھارتی حکمرانوں کو ابھی تک اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘۔ پاکستانی فوج میں شامل وہ جری جوان جو 14 اگست 1947ء کی ہجرت میں اپنا سب کچھ لٹا چکے تھے، دشمن کے سامنے فولاد کی دیوار کی طرح سینہ سپر ہوگئے۔ بھارتی جرنیلوں کو جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ پاکستان کے دل لاہور پر قبضے کا جو خواب وہ اپنی آنکھوں میں سجا کر آئے تھے شیر دل پاکستانی اپنی آخری سانس تک اس تعبیر کی صورت نہ دیکھنے دیں گے۔ لاہور محاذ پر بدترین ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد سیالکوٹ سیکٹر کو میدان کار زار بنایا گیا، لیکن پاکستانی افواج کی جواں مردی کے آگے دشمن کی ایک نہ چلی اور بھارت کے ایسے لتے لیے کہ اسے بھاگتے ہی بنی۔ دوسری جانب چونڈہ کا میدان دشمن کی ٹینکوں کا قبرستان بنادیا گیا، اس جنگ میں نہ صرف بری فوج نے دادِ شجاعت حاصل کی بلکہ فضاؤں پر بھی پاکستان کو برتری حاصل رہی، پہلی جنگی پرواز کا منفرد اعزاز 19 فائٹر اسکوارڈن کے حصے میں آیا اور دشمنوں کو دفاعی جنگ لڑنے پر مجبور کردیا۔ یہی نہیں بلکہ بحریہ نے بھی دشمن کے سمندری ٹھکانوں پر کاری ضربیں لگائیں۔ سومنات کا مندر جسے مسلمان فاتح محمود غزنوی کے ہاتھوں مٹی میں ملنے کا شرف حاصل ہوچکا تھا اسے ایک بار پرھ پاک بحریہ نے زمیں بوس کردیا۔ یہ معرکہ آرائیاں سترہ (17) دن تک جاری رہیں اور ٹینکوں کی یہ دوسری بڑی عالمی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔ ستمبر 1965ء کے ان سترہ دنوں میں فوج کے علاوہ پاکستانی عوام نے بھی شجاعت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ آج بھی دشمنوں کے دل ان کی بہادری اور عظمت سے ہیبت زدہ ہیں۔ قومی اتحاد و یکجہتی کے علاوہ ہر پاکستانی اسلامی جذبے سے بھی سرشار تھا اور اس جنگ کو حق و باطل کا معرکہ تصور کرتا تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ حق پر ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ حتیٰ کہ بعض سرحدوں پر محسوس بھی ہوا کہ غیب سے مدد ہورہی ہے۔ ستمبر 1965ء کی جنگ کے دوران مثالی کردار کا اعلیٰ مظاہرہ صرف افواج پاکستان یا چند مخصوص طبقوں نے نہیں کیا بلکہ پوری قوم نے اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال لیا تھا۔ اس جنگ کے چشم دید گواہ شاہد ہیں کہ شدید جنگی حالات کے باوجود تاجروں نے کسی چیز کی مصنوعی قلت پیدا نہیں کی۔ قیمتیں بھی معمول پر رہیں، حتیٰ کہ بلیک آؤٹ کے دنوں میں بھی چوری چکاری کی کوئی واردات سننے میں نہیں آئی۔ پاک فوج کے جوانوں اور پاک وطن کو چاہنے والوں نے مل کر اپنے سے کئی گناہ طاقتور دشمن کو سبق سکھادیا اور خود کو تاریخ میں امر کردیا۔ اللہ ربّ العالمین ہم سب کو اپنے ماضی کی روشنی میں اپنے مستقبل کی تعمیر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین