کیا ہم زندہ ہیں

447

جویرہ ندیم، نارتھ ناظم آباد
چودہ اگست یوم آزادی کو ہماری قوم زندہ قوم ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے جھنڈیوں اور سجاوٹی سامان سے اپنے گھر اور ملک کو سجا کر اپنے محب وطن ہونے کا اظہار کرتی ہے۔ زندہ کے معنی ہیں سانس لیتا جیتا جاگتا ہر ایک انسان اور زندہ قوم سے مراد وہ قوم جو ایک دوسرے کا دکھ رکھتی ہو، وہ قوم جسے کوئی منتشر نہ کرسکے، وہ قوم جو کسی کے تابع نہ ہو، وہ قوم جو لکڑیوں کے گٹھڑ کی مانند متحد ہو۔ مگر افسوس ہم ایک قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم ہیں، وہ ہجوم جسے ایک خاص جغرافیائی حدود میں جمع کردیا گیا ہو، وہ ہجوم جو ہجوم کہلانے کے لائق نہیں، وہ ہجوم ذات پات، مذہب، رنگ و نسل، اقتصادیت، لسانیت کی بنیاد پر تفرقے میں بٹا ہوا ہو۔ وہ ہجوم جو ایک اذاں پر اکٹھے نہیں، وہ ہجوم جو ایک گلی میں اکٹھا نہیں، حتیٰ کہ رمضان کے چاند پر اکٹھا نہیں!!
اذاں تو ہوتی ہے مگر موذن نہیں بلال سا
سر بسجدہ تو ہیں مومن مگر نہیں زہرہ کے لعل سا
میرے ہم وطنوں!
زوال شدہ قوموں کا یہ مسئلہ رہا ہے
عبرت زدہ قوموں کا یہ قصہ رہا ہے
دیتی ہیں الزام اوروں کو
کرتی ہیں تہمت غیروں کو
بازار گرم رہتا ہے یہاں رشوت کا
چلتا ہے کام یہاں جانبداریوں کا
جھوٹ سے جڑا ہے ہر شخص یہاں کا
نہیں ملتا انصاف دوسرے جہاں سا
ہم وہ قوم ہیں جسے اگر مردہ مرغیاں، گندہ پانی ملے، تیزاب ملا لہسن، کیمیکل زدہ ادرک ملے، گندے پانی سے سیراب سبزیاں ملیں، ملاوٹ والی مرچیں اور دودھ ملے، جانوروں کی انتھڑیوں سے تیار کردہ کوکنگ آئل ملے، تب بھی یہ قوم انصاف کی طلبگار نہیں ہوتی۔ ہم وہ قوم ہیں جس کا ہر فرد وہ درندہ بنا ہوا ہے کہ جس کی جتنی لمبی چونچ اور جس کا جتنا بڑا جبڑا ہے وہ اُسی حساب سے دوسرے کو کھانے میں مگن ہے۔ زندہ قوم تو وہ قوم ہوتی ہے جو سچ کی جگہ جھوٹ کے ڈیرے نہیں ڈالتی جو انصاف کی جگہ ظلم کا انتخاب نہیں کرتی، دیانت کی جگہ خیانت کو تجارت نہیں بناتی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج سے 70 سال قبل ایک قوم ایک ملک کی تلاش میں تھی مگر آج ایک ملک ایک زندہ قوم کی تلاش میں ہے۔
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
مقصد قوم کے حوصلے پست کرنا نہیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا صحیح آئینہ دیکھیں، اپنی کمزوریوں کو ختم کریں اور اپنے اندر زندہ روح بیدار کریں۔ آرزو یہی ہے
اس دور کی ظلم میں ہر قلب پریشان کو
وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے