ایف پی سی سی آئی کی ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈز سے زرعی تحقیقی مراکز کے قیام کی پیشکش

459
چیئرمین پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایسوسی ایشن وحید احمد صدر ایف پی سی سی آئی زبیر طفیل کو مسائل سے آگاہ کررہے ہیں

کراچی(اسٹاف رپورٹر) پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایسوسی ایشن (پی ایف وی اے) کے تحت ہارٹی کلچر سیکٹر کی ترقی کے لیے نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل کے لیے قومی کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں چھٹا اجلاس فیڈریشن ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر طفیل، ایف پی سی سی آئی کے سرپرست اعلیٰ اور ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹ کے چیئرمین وحید احمد، چیئرمین عبدالمالک، سابق سینئر وائس چیئرمین اسلم پکھالی، سندھ آبادگار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری محمود شاہ و دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں ٹرانسپورٹرز، کلیئرنگ ایجنٹس اور کھجور کے فارمرز اور ایکسپورٹرز نے بھی شرکت کی اور پھلوں سبزیوں کی ترسیل اور پیداوار سے متعلق مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل تلاش کرنے کے لیے قومی کانفرنس کے انعقاد کو اہم پیش رفت قرار دیا۔



اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر طفیل نے ہارٹی کلچر سیکٹر میں تحقیق کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈ کے ذریعے فنڈز مہیا کرنے کی پیشکش کی جو نجی شعبے کے تحت تحقیقی مراکز کے قیام کے لیے خرچ کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے حکومت کو ہارٹی کلچر سیکٹر کے لیے 5فیصد مالی معاونت فراہم کرنے کی تجویز دی گئی تھی تاہم سابق وزیر خزانہ کی یقین دہانی کے باوجود یہ سہولت فراہم نہ ہوسکی۔ انہوں نے ہارٹی کلچر سیکٹر کی ترقی کے لیے پی ایف وی اے کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے قومی مشاورتی کانفرنس کے انعقاد کو خوش آئندقرار دیا اور ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے ہرممکن سپورٹ اورتعاون کی یقین دہانی کرائی۔



زبیر طفیل نے ہارٹی کلچر انڈسٹری کے تمام اسٹیک ہولڈرز پر باہم روابط کو مضبوط بنانے اور مسائل کو مل جل کر حل کرنے کے لیے اجتماعی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے ہارٹی کلچر سیکٹر میں سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے 30سے 40فیصد پیداوار ضائع ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایکسپورٹرز اور فارمرز پر زور دیا کہ اس نقصان کو روکنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کریں ۔ انہوں نے پی ایف وی اے پر زور دیا کہ آئندہ ایک ماہ کے دوران سندھ اور بلوچستان میں پھل اور سبزیوں کے تحقیقی مراکز کے قیام کے لیے جامع تجویز تیار کریں تاکہ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈسے ان مراکز کے لیے رقوم مہیا کی جاسکے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پی ایف وی اے کے سرپرست اعلیٰ اور ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹ کے چیئرمین وحید احمد نے کہا کہ موسمیاتی تغیر (کلائمنٹ چینج) زراعت اور ہارٹی کلچر کے شعبے کے لیے سب سے اہم چیلنج ہے۔ پی ایف وی اے نے ہارٹی کلچر سیکٹر کی برآمدات کو درپیش خدشات کے بارے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایک سال قبل ہی آگاہ کردیا تھا تاہم اس شعبے کے مسائل کے حل پر کوئی توجہ نہیں کی گئی تاہم اب پی ایف وے اے نے خود ہی اس صنعت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے قومی سطح پر ایکشن پلان کی تشکیل کا بیڑہ اٹھایا ہے جس کے لیے پاکستان کی پہلی قومی کانفرنس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرکے تفصیلی مشاورت کے بعد سفارشات تیار کی جائیں گی۔



کانفرنس کے سلسلے میں صوبائی سطح پر مشاورت کا عمل شروع کیا جاچکا ہے جلد ہی تمام صوبوں گلگت بلتستان اور کشمیر کے اسٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہارٹی کلچر سیکٹر میں سرمایہ کاری کے امکانات کو اجاگر کرنے کے لیے پاکستان کے بڑے کاروباری گروپس اور سرمایہ کاروں کو بھی کانفرنس میں مدعو کیا جائے گا اگلے مرحلے میں زراعت اور ہارٹی کلچر انڈسٹری کی گلوبل کمپنیوں کو پاکستان مدعو کیا جائے گا۔ کانفرنس کو زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز بنانے کے لیے پاکستان میں زرعی تحقیقی اداروں ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹس کے ساتھ بھی مشاورت کی جارہی ہے۔ تحقیق کے ذریعے فارمز کی سطح پر پیداوار میں اضافے اور معیار کی بہتری اور نئی ورائٹیز پر توجہ دیتے ہوئے پاکستانی مصنوعات کی مارکیٹنگ اور برانڈنگ کو بہتر بنایا جائے گا۔ وحید احمد نے زراعت اور ہارٹی کلچر سیکٹر کی ترقی کے لیے فارمرز کا کردار انتہائی اہم ہے اسی لیے کانفرنس کے انعقاد اور نیشنل روڈ میپ کی تشکیل میں فارمنگ کمیونٹی کو بنیادی اہمیت دی جارہی ہے۔



اجلاس کے دوران سندھ آبادگار بورڈ کے سیکرٹری جنرل محمودنواز شاہ نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے فارمرز کو نقصان کا سامنا ہے فارمنگ اور سپلائی چین کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پیداوار کم ہونے کے باوجود ضرورت سے زائد پیداوار مل رہی ہے جو ایکسپورٹ کی جاتی ہے تاہم مجموعی پیداوار کا صرف پانچ فیصد حصہ ہی ایکسپورٹ ہورہا ہے انہوں نے زرعی شعبے کی بہتری کے لیے مربوط حکمت عملی اور نجی شعبے کے کردار کو اہم قرار دیا انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے میں بھی زراعت کے لیے بے حد فوائد موجود ہیں تاہم ان سے استفادہ کرنے کے لیے چینی فرمز اور اداروں کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ اجلاس میں کھجور کے کاشتکاروں اور تاجروں نے بھی شرکت کی اور ورائٹیز کے فقدان، جدید طور طریقوں سے عدم واقفیت اور موثر مارکیٹنگ کے فقدان کو کھجور کی صنعت کے اہم مسائل قرار دیا۔



کھجور کے کاشتکاروں کے مطابق کھجور کی 90فیصد پیداوار چھوہارے کی شکل میں بھارت کو ایکسپورٹ کردی جاتی ہے تاہم لیٹر آف کریڈٹ کے ذریعے ایکسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے فارمرز کو اس کی مناسب قیمت نہیں ملتی اور بھارت کی جانب سے خریداری بند ہونے کی صورت میں کھجور کی پیداوار بھی خطرے میں پڑجائے گی۔ اجلاس میں ٹرانسپورٹرز اور کلیئرنگ ایجنٹس کمپنیوں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی اور پھل اور سبزیوں کی ترسیل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی تفصیلی نشاندہی کرتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لیے قومی کانفرنس کے انعقاد کو اہم پیش رفت قرار دیا۔