اب مرض کی تشخیص بھی سافٹ ویئر سے ہوگی

347

کسی بھی مرض کی درست ترین تشخیص کے لیے ڈاکٹروں کو مریض کے مرض کی سابقہ تاریخ جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کے لیے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ کہیں وہ بیماری مریض کے خاندان میں تو نہیں تھی یا پھر بچپن میں تو کہیں مریض اس مرض کا شکار تو نہیں رہا۔ اگر مریض سمجھ دار ہو اور اسے مریض کی تاریخ اور تشخیص کا علم ہو تو ٹھیک، ورنہ دوسری صورت میں مرض کی تشخیص میں تھوڑی مشکل درپیش آتی ہے۔ کم عمر بچوں کی ایسی بیماریاں جن کی ظاہری علامات واضح ہوں، وہ بیماریاں تو بچوں کو خود بھی پتا چل جاتی ہیں اور ان کے گھر والوں کو بھی، جیسے نزلہ، کھانسی، بخار وغیرہ۔ مگر کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کی ظاہری علامات یا تو ہوتی نہیں یا اتنی غیر واضح ہوتی ہیں کہ مریض یا اس کے رشتے داروں کو مرض کے بارے میں پتہ ہی نہیں چلتا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام بنایا جا رہا ہے جو آپ کی تصاویر دیکھ کر پتا لگا سکتا ہے کہ آپ کو کوئی غیر معروف اور نایاب قسم کی بیماری ہے یا نہیں۔ یہ پروگرام چہرے کے خدوخال سے بیماری کا پتا چلا لے گا۔ اگر اس کے ڈیٹا بیس میں خاندانی تصاویر بھی دے دی جائیں تو پروگرام یہ بھی بتا سکے گا کہ کہیں آپ کو کوئی جینیاتی بیماری تو نہیں۔



نایاب جینیاتی خامیاں یا بیماریاں صرف 6 فی صد لوگوں میں ہی پائی جاتی ہیں۔ عام جینیاتی بیماریوں کا پتا لگانے کے لیے لیبارٹری میں تشخیصی ٹیسٹ کیے جاتے جاسکتے ہیں، لیکن کئی جینیاتی بیماریاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی تشخیص کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔ ان میں خاص طور پر نایاب جینیاتی بیماریاں شامل ہیں۔ چونکہ یہ بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں، اس لیے ان کی تشخیص کا طریقہ کار اب تک واضح نہیں ہو پایا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان بیماریوں کا شکار لوگ زندگی بھر جان ہی نہیں پاتے کہ انہیں کونسی بیماری ہے۔ کچھ ڈاکٹر بھی ایسے نایاب امراض کی تشخیص کے لیے چہرے کے خدوخال پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ ان امراض کے شکار 30 سے 40 فی صد تک مریضوں کے چہرے کی بناوٹ میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے چہرے کے خدوخال سے بیماری کی تشخیص میں ماہر ڈاکٹرز کی تعداد بہت محدود ہے مگر اس نئے کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے ان بیماریوں کی تشخیص میں بہت مدد مل سکتی ہے۔



اس سافٹ ویئر کو یونی ورسٹی آف آکسفورڈ کے کرسٹوفر نیلاکر (Christoffer Nellåker) ، اینڈریوزیسرمین (Andrew Zisserman) اور ان کے دیگر ساتھیوں نے بنایا ہے۔ اس سافٹ ویئر کی تیاری کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اسے بنانے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر وژن الگورتھم کو 8 مختلف جینیاتی بیماریوں کا شکار لوگوں کی عام دستیاب 1363 تصاویر فراہم کی گئیں۔ ان جینیاتی بیماریوں میں Down’s Syndrome ، fragile X syndrome، progeria وغیرہ شامل ہیں۔ ان جینیاتی بیماریوں کا شکار افراد کے چہرے کے خدوخال ایک عام فرد سے مختلف ہوتے ہیں۔ تصاویر کی مدد سے سافٹ ویئر نے چہرے کے 36 مختلف نقوش یا خدوخال ، خاص طور پر آنکھوں ، بھوؤں ، ہونٹوں اور ناک کی بناوٹ سے بیماریوں کو شناخت کرنا سیکھ لیا۔ جب اس سافٹ ویئر کو کسی مریض کی تصویر فراہم کی جاتی ہے تو یہ اس تصویر سے مریض کے چہرے کے خدوخال کو شناخت کرتا ہے اور انہیں پہلے سے معلوم مریضوں کی تصاویر سے حاصل کیے گئے ڈیٹا سے ملا کر جانچا جاتا ہے۔

8 بیماریوں کی تشخیص کے عملی مظاہرے کے بعد اس سافٹ کو اب 90 بیماریوں کی تشخیص کے قابل بنایا جا رہا ہے۔ اس کے ڈیٹا بیس میں تجزیے کے لیے ابھی 2754 متاثرہ بیماریوں کے حامل افراد کی تصاویر ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ کیا جارہا ہے۔اس سافٹ وئیر کی مدد سے بیماری کے 100 فیصد حتمی تعین کا مرحلہ تو ابھی نہیں آیا مگر اس کے باوجود اس کی مدد سے کوئی بھی ڈاکٹر اپنے ذاتی مشاہدے سے 30 گنا زیادہ بہتر طور پر بیماری کا تجزیہ کر سکتا ہے اور بیماری کو قریب قریب تشخیص کر سکتا ہے۔