کیا بھارت مسئلہ کشمیر سے جان چھڑا لے گا؟

237

zc_MFبھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ 2022ء تک اپنی مرضی کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرلے گا۔ آئندہ پانچ سال کے عرصے میں بھارت نے جنوبی ایشیا کے اس سنگین ترین مسئلے سے نجات حاصل کرنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟۔ اس کی وضاحت بھارت کے وزیر دفاع ارون سیٹھی نے ایک بیان میں یوں کی ہے کہ کشمیر کی آزادی کی بات کرنے والوں کی آواز کو نہایت سختی سے خاموش کردیا جائے گا اور فوج آزادی کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کو بے رحمی سے کچل دے گی۔ انہوں نے کہا کہ اب مذاکرات کے بجائے طاقت کی زبان استعمال کی جائے گی۔ بھارتی وزیر دفاع نے الزام لگایا کہ پاکستان کشمیر میں افراتفری پیدا کرنے کے لیے فنڈز فراہم کررہا ہے اور کشمیری پاکستان سے روپیہ لے کر بھارت کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں لیکن ہم پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کو اُکسانے کی ساری کوششیں ناکام بنادیں گے۔ کشمیری قیادت نے بھارت کے اس الزام کو نہایت بے ہودہ قرار دیا ہے۔
بھارت ایک طویل عرصے تک پاکستان کے ساتھ مذاکرات مذاکرات کا کھیل کھیلتا رہا ہے۔



اس کھیل کا واحد مقصد عالمی برادری کو یہ تاثر دینا تھا کہ وہ کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ہر امکانی کوشش کررہا ہے۔ 1990ء کی دہائی تک امریکا بھی اس بات کا حامی تھا کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت ملنا چاہیے۔ امریکی سفارت کار پاکستانی اور کشمیری لیڈروں سے ملاقاتوں میں اپنی حکومت کے اس موقف کا برملا اظہار کرتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بھارت اُس زمانے میں روس کا حلیف تھا۔ روس نے جب افغانستان پر حملہ کیا اور وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے افغان علاقوں پر اپنا تسلط مستحکم کرنے کی کوشش کی تو بھارت کی خاموش تائید اسے حاصل تھی اور بھارت یہ توقع کررہا تھا کہ روس آگے بڑھ کر پاکستان کو بھی سبق سکھانے کی کوشش کرے گا۔ اس صورت حال میں امریکا کا علاقائی مفاد اس میں تھا کہ وہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی تائید کرے اور کشمیریوں کو اپنی حمایت کا یقین دلائے تا کہ بھارت کو روس کی دوستی کا مزا چکھایا جاسکے لیکن جب افغان جنگ میں امریکا، یورپ اور عرب ملکوں کی عملی مدد و حمایت سے روس کو عبرت ناک شکست ہوگئی اور پاکستان کے خلاف روس کے مذموم عزائم بروئے کار نہ آسکے بلکہ سوویت یونین کی صورت میں روس کی جو عظیم امپائر کھڑی تھی وہ افغان جنگ کے نتیجے میں بکھر کر رہ گئی تو جنوبی ایشیا میں بھی امریکا کے مفادات بدلنے لگے۔



امریکا کی دوستی ہمیشہ اپنے وقتی مفادات کی اسیر رہی ہے اس نے کبھی کسی ملک کے ساتھ پائیدار دوستی نہیں کی۔ نائن الیون کے بعد امریکا کے مفادات کا رُخ بالکل بدل گیا ہے جس کا بھارت کو فائدہ پہنچا ہے۔ امریکا نے نائن الیون کی آڑ میں افغانستان پر یلغار کر رکھی ہے وہ گزشتہ پندرہ سولہ سال سے اپنے اتحادی ناٹو ممالک کے تعاون سے افغانستان کو جارحیت کا نشانہ بنائے ہوئے ہے اس نے ترغیب و ترہیب (Stick and Carrot) کے ہتھکنڈوں کے ساتھ پاکستان کو بھی اپنی حمایت پر مجبور کر رکھا ہے۔ امریکا نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جو نام نہاد جنگ مسلط کر رکھی ہے اس میں پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت دی گئی ہے۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے پر پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرچکا ہے لیکن نتائج حسب توقع حاصل نہیں ہوئے۔ امریکا پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ افغانستان کے معاملے میں ڈبل رول ادا کررہا ہے، ایک طرف وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کے ساتھ تعاون کرنے کا دعویٰ کرتا ہے تو دوسری طرف وہ افغان طالبان کی بھی در پردہ مدد کررہا ہے اور افغانستان میں امریکا کی کامیابی کی راہ میں حائل ہے،



اس الزام تراشی کا واحد مقصد افغانستان میں امریکا کی ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنا اور اسے مورد الزام ٹھیرانا ہے، امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت کر امریکا کو یہ کامیابی طشتری میں رکھ کر پیش کردے۔ صدر ٹرمپ نے جس افغان پالیسی کا اعلان کیا ہے اس کا لب لباب بھی یہی ہے۔ امریکا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے اور بھارت امریکا کی اس پالیسی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے آئندہ پانچ سال کے دوران مسئلہ کشمیر سے جان چھڑانا چاہتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے خواہ کتنی ہی سفاکی کا مظاہرہ کیا جائے امریکا نہیں بولے گا اور امریکا کی پیروی میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری بھی زبان بند رکھے گی اور وہ طے شدہ مدت میں اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔



یہی وجہ ہے کہ بھارت نے سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں حریت قائدین پر ہاتھ ڈالا ہے وہ ان کی پُرامن سیاسی جدوجہد کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے، اس وقت صف اول کے تمام حریت قائدین جیلوں میں ہیں اور وہاں ان سے نہایت شرمناک سلوک کیا جارہا ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی این آئی اے (نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی) کو اس سلسلے میں خصوصی اختیارات دیے گئے ہیں اور وہ کشمیر لیڈروں سے تفتیش کے لیے تھرڈ ڈگری حربے اختیار کررہی ہے۔ یہ امر قابل ذِکر ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں سید علی گیلانی سے اختلاف کے سبب تحریک حریت کو دو دھڑوں میں تقسیم کردیا تھا اور ایک دھڑے کی قیادت پر میر واعظ عمر فاروق کے سپرد کرکے اسے پاکستان کی سطح پر تسلیم کرلیا تھا اور سید علی گیلانی کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ یہ دونوں دھڑے اب بھی قائم ہیں لیکن آزادی کے نصب العین پر ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سید علی گیلانی ہوں یا میرواعظ عمر فاروق دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادی ملنا چاہیے اور بھارت سے اس موضوع کے سوا کسی اور موضوع پر بات نہیں ہوسکتی۔ بھارت نے ان دونوں قائدین کو گھروں میں نظر بند کر رکھا ہے جب کہ دونوں دھڑوں کے صف اوّل کے لیڈروں کو جیلوں میں اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے جب کہ شبیر شاہ اور یٰسین ملک بھی جو اپنی الگ سیاسی شناخت رکھتے ہیں، بھارت کے شرمناک سلوک کا شکار ہیں۔ خاتون رہنما سیدہ آسیہ اندرابی بھی جیل میں ہیں، بھارت کے وزیر مملکت برائے داخلہ امور ہنس راج نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان گرفتاریوں کے باوجود سیاسی بے چینی میں کمی نہ آئی تو سید علی گیلانی اور میرواعظ عمر فاروق کو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جاسکتا ہے۔



بھارت ایک طرف مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت کو ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے اور دوسری طرف وہ مسلح مزاحمت کے خلاف بھی ہر ممکن طریقے سے کریک ڈاؤن کررہا ہے، اس نے امریکا کے ذریعے کشمیریوں کی نمائندہ عسکری تنظیم حزب المجاہدین کو عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دلوا دیا ہے۔ بظاہر اس کا مقصد حزب المجاہدین کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔ لیکن مقامی طور پر بھارت کو منفی اثرات کا سامنا ہے اور کشمیری نوجوان تیزی سے حزب میں شامل ہورہے ہیں۔ بھارتی فوج کو جوں ہی کسی علاقے میں مجاہدین کی نقل و حرکت کی اطلاع ملتی ہے وہ فوراً ہی پورے علاقے کو محاصرے میں لے کر گھر گھر تلاشی کا عمل شروع کردیتی ہے اور بے گناہ نوجوانوں کو اُٹھا کر لے جاتی ہے جب کہ مجاہدین اس کے ہاتھ نہیں آتے۔ کہا جارہا ہے کہ بھارت آئندہ پانچ سال تک یہی عمل جاری رکھے گا لیکن گوہر مقصود پھر بھی اس کے ہاتھ نہیں آئے گا اور پانچ سال بعد بھی مسئلہ کشمیر بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے گھورتا رہے گا۔