ریاست کا مفاد ہی عزیز ہونا چاہیے

314

zc_Mian Muneerپارلیمنٹ اور سیاست کے سمتِ سفر کی درستی کے لیے لازم آیا آئین پر عمل کیا جائے، آئین کہتا ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے اور ہر شہری آئین کا وفادار رہنے کا پابند ہے اسی آئین میں پارلیمنٹ کے ارکان، وزراء اور وزیر اعظم، صدر پاکستان کے لیے حلف کی عبارت بھی موجود ہے حلف ایک عہد ہے اور عہد نبھانے والا ہی صادق اور امین کہلا سکتا ہے۔ آج کل آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ میں ترمیم کی بات ہورہی ہے، یہ ترمیم در اصل قانون سازی کے لیے ہے جس کے ذریعے سزا کا تعین کیا جاسکتا ہے لیکن جو معاملے کو سمجھتے نہیں ہیں وہ اس بارے میں ایک ایسی بحث میں مبتلا ہیں جس کا کوئی جواز اور فائدہ نہیں ہے بلاشبہ پارلیمان کی بالا دستی سیاست دانوں پر عائد ایک فریضہ ہے جسے انجام دینا چاہیے، ایک بوجھ ہے جسے اٹھانا چاہیے۔ کانٹوں پر چلے بغیر یہ بوجھ اٹھا یا نہیں جا سکتا اور گھپ اندھیری رات کا سینہ چیرے بغیر یہ فرض ادا ہو نہیں سکتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاہے کچھ لوگ پھولوں کی سیج پر لوٹتے ہیں پر سرور نہیں پاتے۔ کہیں کہیں ایسا بھی ہوا کہ بعض مضطرب نفوس کانٹوں پر دوڑتے ہیں اور اس کی چبھن میں راحت کی لذت پانے لگتے ہیں۔



میثا ق جمہوریت کے تخلیق کاروں اور ذمے داروں کو کچھ تو جواب دینا ہوگا کہ یہ کیوں آگے نہیں چل رہا میثاق جمہوریت کی گاڑی جتنا دھکا اسے لگایا گیا، یہ آگے جانے کے بجائے اس سے زیادہ طاقت کے ساتھ پیچھے پلٹ آئی کیا عملی دشواریاں ہیں؟ ایک ایسے پْر آشوب عہد میں جہاں سیاسی کھیل میں گالی اور گولی ملتی ہو۔۔۔ جہاں چہار سو سیاست کے خلاف الزام و دشنام کی آندھیاں چلتی ہوں۔ نفرت وغضب کی چڑھی ہوئی کمانیں مینہ جائے یا آندھی آئے دن رات کسی رہتی ہوں۔ وہاں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ کے لیے بھی کسی نئی سیاسی صبح کا ڈول ڈالنا سہل کہاں، نواز شریف اور آصف زرداری دونوں انقلاب کے دعوے دار نہیں، تدریجی ارتقا کے پرستار ٹھیرے۔ پھر تو دونوں کو فکری صلابت، ملوکانہ فراست اور جہانگیری سخاوت ایسے اوصاف سے آشنا ہونا چاہیے۔ بھائی ہیں۔۔۔ مگر مولانا فضل الرحمان کی مانند کہ تجھ پر مرتے ہیں اور تجھے ہی مار رکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست پر اول روز سے ہی نا آسودگی کا سایہ گہرا رہا۔ سوچنا چاہیے کہ یہاں نئی زمین یا کوئی نیا آسماں کیوں بن نہ سکا۔ گو نواز شریف نے اپنے تجربے، مشاہدے اور نظریے سے جِلا پا کر سیاست میں درست طرز کا ادراک کیا ہے۔ آصف علی زرداری کے زخم بھی ہیں دیکھتے ہیں کہ مگر اس سے کب، کیوں اور کیسے بھرتے ہیں؟



عباس شریف کے انتقال پر جب آصف علی زرداری تعزیت کے لیے جاتی امرا آیا چاہتے تھے، تب نواز شریف نے ملنے سے کیوں انکار کیا تھا؟ میمو گیٹ اور گیلانی کی رخصتی پر انہوں نے معتدل اور مروج سیاست کیوں کی؟ یہ بھی مت بھولنا چاہیے کہ کل 62,63 پر سیاست مسلم لیگ نے کی تھی تو آج پی پی خود کرنے چلی ہے۔ پھر دونوں میں امتیاز کیا ہے؟ دونوں میں کون ہے جو سر اٹھا اور سینہ پھیلا کر اپنی برتری کا اظہار کرے؟ کون ہے جو فراست یا سخاوت کا ثبوت پیش کرے؟ نواز شریف کہتے رہے ہیں وزارت عظمیٰ پھولوں کی سیج نہیں۔ جی ہاں کانٹوں کا بستر ہے اور راستہ بھی کانٹوں سے اٹا ہوا۔ کانٹے تو پھر کانٹے ہیں کبھی دامن سے الجھیں گے اور کبھی پاؤں میں چبھیں گے۔ مقصد اور منزل کی خلش جو قلب میں پیوست ہے اس کی بھی کس کو خبر! سیاسی زندگی تو بغیر کسی مقصد کے بسر ہوتی بھی نہیں۔ یہ ایسا اٹکاؤ رہا کہ اس کے ساتھ کوئی اور لگاؤ ہوسکتا نہیں۔ سیاسی زندگانی تو کوئی بندھن مانگتی، یہ بندھن آئین سے ہی ہوسکتا ہے جو کہتا ہے کہ ریاست اور اس کے مفاد کو عزیز رکھا جائے۔