پلاسٹک کی تھیلیاں اور کینیا کی عدالت

306

Edarti LOHپلاسٹک بیگز یا پولیتھن کی تھیلیوں کے استعمال پر پاکستان میں پابندی کا اعلان کیا جاتا رہا ہے جو صرف اعلان تک محدود رہا۔ تاہم ایک افریقی ملک کینیا میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال کے خلاف دنیا کا سخت ترین قانون منظور کیا گیا ہے جس کی رو سے پلاسٹک کی تھیلیوں کی خرید و فروخت پر 4سال قید یا 40ہزار ڈالر تک جرمانہ عاید کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کے تقریباً 40ممالک میں اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات ہو چکے ہیں جن میں چین، فرانس اور اٹلی سرفہرست ہیں ۔ پاکستان میں بھی اس مسئلے کو بارہا اٹھایا گیا ہے لیکن حکومت اس پر عمل درآمد نہ کراسکی۔ 2005ء میں 30 مائیکرون سے کم وزن کی تھیلیوں پر پابندی لگائی گئی پھر 2010ء میں ایسی تھیلیاں متعارف کرائی گئیں جو مٹی میں گھل جاتی ہیں لیکن یہ پالیسی نفاذ کی حد تک نہ پہنچ سکی۔



شہروں میں گندگی اور کچرے کے ڈھیر کا بڑا حصہ انہی تھیلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ گٹر اور نالوں کے بند ہوجانے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھیلیاں بنتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق مستعمل تھیلیاں ہزار سال تک بھی نہیں گھل پاتیں اور ان کی بدولت ڈینگی، چکن گنیا، ملیریا اور نہ جانے کتنی بیماریاں ہیں جو با آسانی وبائی صورت اختیار کرجاتی ہیں ۔ کراچی بلدیہ کی نا اہلی ایک طرف، بالفرض محال اگر شہر کی صفائی کا معقول انتظام ہوجائے تو بھی ان کے نقصانات سے پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا۔ اس فضلے کو زمین میں دفنایا جائے توزمین کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوتی ہے جبکہ جلائے جانے سے سانس کے امراض پیدا ہوتے ہیں ۔ سمندر برد کیا جائے تو آبی جانوروں کی حیات خطرات سے دو چار ہو جاتی ہے،



ان حالات میں تھیلیوں کے استعمال کی حوصلہ شکنی اور ان پر پابندی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ضروری ہے کہ اس حوالے سے عبوری سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے۔ دنیا میں جہاں بہت سے ’’ڈے ‘‘ منائے جاتے ہیں وہیں ایک ’’ دن‘‘ اس کے نام بھی کردیا جائے تو اس کو اہم پیشرفت تصور کیا جاسکتا ہے۔ کینیا میں پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے والی کمپنیوں نے عدالت سے یہ فیصلہ منسوخ کرنے کی درخواست کی تھی کہ اس سے متعدد افراد کا روزگار متاثر ہوگا لیکن یہ استدعا مستردکردی گئی۔ پاکستان ہوتا تو حکم امتناع مل جاتا ۔