قربانی کے تقاضے

295

مرزا سبحان بیگ
جب ہم جانوروں کے گلوں پر چھری چلائیں تو اس تصور اور اس عزم کے ساتھ کہ فی الحقیقت ہم چھری چلارہے ہیں:
(1) اپنی نفسانی خواہشات پر، جو اللہ کے دین پر چلنے میں مانع بنتی رہتی ہیں، اس فدویت و جاں نثاری سے ہمیں، ہماری ازواج کو اور ہماری اولاد کو روکتی ہیں جس کا اعلیٰ نمونہ حضرت ابراہیمؑ اور آپ کی نیک بیوی حضرت حاجرہؑ اور نیک فرزند حضرت اسماعیلؑ کی زندگیوں میں ہمیں ملتا ہے۔
(2) خاندان اور آبا واجداد کی غیر اسلامی رسموں پر اور خرافات و بدعات پر جو امت کے ایک بڑے حصے پر مسلط ہیں، جو اس کے عقیدۂ توحید کو مشتبہ بناتی ہیں اور جو غیر مسلم دنیا کے اسلام کے قریب آنے اور قبول کرنے میں مانع بنتی ہیں۔
(3) خود غرضی، بخیلی، مفت خوری، حرام خوری، فضول خرچی اور ریا کی خباثت پر، جس نے ہمارے عوام ہی نہیں خواص کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
(4) حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے غفلت پر کہ کتنے ایسے ہیں جو بڑے بڑے جانوروں کی قربانیاں تو کرتے ہیں لیکن ان حقوق کی ادائیگی کی انہیں کم ہی توفیق نصیب ہوتی ہے۔
(5) بے شرمی، بے حیائی و بے پردگی کی لعنت پر، جس کے شکار اب عام مسلمانوں ہی کے نہیں علما ودانشورانِ اسلام کے گھرانے بھی ہوتے جارہے ہیں، اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ حضرات خود اس لعنت کے دروازے کھولنے پر مْصر نظر آتے ہیں اور اس کے لیے قرآن وحدیث کی من مانی تاویلات کرکے جواز پیدا کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ مزید برآں ان کی سرگرمیوں اور تحریروں کا مرکز و محور ہی یہ نظر آتا ہے کہ ملّت کی ترقی و سرخروئی بس اسوۂ مغرب میں ہے۔ کیونکہ اس نسخۂ کیمیا کو استعمال کرکے مغرب ساری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اگرچہ یہ سب کچھ یہ حضرات اس مرعوبیت اور شکست خوردگی کو چھپانے کے لیے کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں جس کے شکار وہ مغرب کی غیرمعمولی مادی ترقی اور سیاسی غلبے کو دیکھ کر، نیز اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں پر ہر طرح کے اور پیہم حملوں کی تاب نہ لاکر ہوئے ہیں، تو چھری اس مرعوبیت اور شکست خوردگی پر بھی چلائیں۔
(6) اتحاد و اتفاقِ ملّی سے غفلت پر، ملّی انتشار و افتراق کو ہوا دینے والی ذہنیت پر اور گروہی و مسلکی عصبیت پر کہ ان امراض نے ملّت کو پارہ پارہ کردیا اور اس کی ہوا اکھڑ گئی۔ ان امراض کو دعوت دینے کے نتیجے میں فطری طور پر ایسا تو ہونا ہی تھا۔
(7) اقامتِ دین و غلبۂ دین کی کوششوں کے نتیجے میں مختلف نقصانات اور مصیبتوں سے دوچار ہوجانے کے ڈر پر، نیز بے صبری، مداہنت و عافیت پسندی اور سہل انگاری و تعیش پسندی کے رجحان پر، جو رہ رہ کر باطل نظریات اور نظام باطل کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
یہاں بس اسی پر اکتفا کیا جاسکتا ہے، اگرچہ خبیث اور مذموم چیزیں اور بھی ہیں جن پر قربانی کرتے وقت چھری چلانے کی ضرورت ہے۔