افشاں نوید
ایک عورت کے نقوشِ پا جس پر انسانیت کے قافلے شرف کے ساتھ دوڑ رہے ہیں، اور جب تک دنیا قائم ہے ’سعی‘ کا یہ عمل جاری و ساری رہے گا۔ لبیک اللھم لبیک کی صداؤں کے ساتھ لوگ دیوانہ وار لپک رہے ہیں، منزلِ مراد پارہے ہیں، طواف کے بعد صفا اور مروہ کی سعی کررہے ہیں، اور اس واقعے کی یاد تازہ کر رہے ہیں جب حضرت ابراہیمؑ کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہؓ اپنے ننھے لختِ جگر حضرت اسماعیلؑ کے لیے پانی کی تلاش میں دوڑ رہی تھیں۔ پیروں کی وہ دھول کیسی معتبر ٹھہری، مشقت کی وہ ادا کیسی پسند آئی، کیسا اکرام دیا رب نے ان نسوانی قدموں کے نشانات کو کہ اْمت کے مرد بھی کروڑوں کی تعداد میں ان نقوش پا پر دوڑ چکے ہیں کہ دوڑنے کی وہ ادا تو محبوبِ رب ٹھہری۔
آخر ایسا کیا تھا اس ادا میں جو قبولیت کی اس معراج کو پہنچی کہ شرفِ انسانیت قرار پائی، کمالِ نسوانیت قرار پائی۔ ایک عورت کی وہ قربانی جس نے صدیوں کو نور بخشا ہوا ہے، منور کیا ہوا ہے، ان قدموں کی وہ تابناکی، وہ ضوفشانی کہ انسانیت راہِ راست پر رہے گی جب تک ان قدموں کے نشانات اور اسی جذبے کو سنگِ میل بنائے رکھے گی۔ صدیوں کی گرد جھاڑیے۔۔۔ چشمِ تصور کو ماضی کے ان لمحوں میں وا کیجیے اور دیکھیے کہ حضرت ابراہیمؑ جو خلیل اللہ ہیں، مسلم حنیف ہیں۔۔۔ اب تک کی ہرآزمایش میں پورا اْتر چکے ہیں، عشق سے بڑھ کر فدائیت کی منزلوں میں ہیں۔۔۔ حکمِ ربی ہوتا ہے کہ اپنی اہلیہ اور صاحب زادے اسماعیلؑ کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لے جاکر چھوڑ دیں۔ حکم ربی کی تعمیل فرماتے ہیں۔ حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو اس غیرآباد اور بنجرسرزمین میں چھوڑ کر چلے آتے ہیں۔ نہ آدم، نہ آدم زاد، نہ سبزہ نہ پانی، نہ دْور تک کسی چرندپرند کا نام و نشان۔۔۔ ایسا ویران ایسا سنسان جنگل جہاں سانسوں کی بھی آہٹ محسوس ہوتی ہو۔ نومولود اور اس کی ماں اس ویرانے کو آباد کرنے آئے ہیں۔ امکانات اور نتائج پر نظر رکھنے والے تو سرجھٹک کر اسے دیوانے کی بڑ ہی کہیں گے۔ ناممکن العمل اور ناقابلِ یقین ہی گردانیں گے، مگر یہاں تو تاریخ کا ایک نیا باب رقم ہونے جا رہا ہے۔ عزیمتوں کی ناقابلِ تصور داستان کا ایک سنہرا باب!
حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے لیے توشہ بھی کیا ہے؟ ملاحظہ کیجیے: چمڑے کا تھیلا کھجوروں سے بھرا، اور ایک چھوٹا سا پانی کا مشکیزہ۔۔۔ حضرت ہاجرہؑ کے حوالے کر کے حضرت ابراہیمؑ پلٹ جاتے ہیں۔ اب کیا ہونا ہے؟ آگے کیا کرنا ہے؟ مستقبل کی صورت گری کیا ہوگی؟ آگے کے منصوبے کیا ہیں؟ اس ویرانے میں ان دو کمزور جانوں کا تیسرا پْرسانِ حال کون ہوگا؟ ایک نسوانی ذات کے ساتھ یوں بھی لاکھ تحفظات ہوتے ہیں۔۔۔ کون چھوڑتا ہے یوں محبت کرنے والی بیوی اور نورالعین کو۔۔۔ اگر کوئی جنگلی درندہ ہی آنکلا تو کیا ہوگا؟ اندیشے ہیں، وسوسے ہیں، خطرات ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کو جو جاتے دیکھا تو حضرت ہاجرہؑ پیچھے لپکیں۔ کب آئیں گے واپس؟آگے کیا ہوگا؟ محبوب بیوی پکار رہی ہے، روک رہی ہے کہ سوالوں کے جواب تو دے کر جائیں لیکن ابراہیمؑ رْک جاتے تو تاریخ ٹھہرجاتی۔۔۔ زمان و مکان کی گردش رْک جاتی کہ تاریخ کو تو تیزی سے بغیر رکاوٹ کے اپنا یہ باب رقم کرنا تھا۔ عشق و فدائیت کی یہ لازوال داستان اْدھوری رہ جاتی۔ اگر ابراہیم پلٹ کر دیکھ لیتے تو شفقتِ پدری غالب آجاتی یا حضرت ہاجرہؑ کی بے چارگی پیروں کی زنجیر بن جاتی۔ اس لیے صدائیں سماعتوں سے ٹکراتی رہیں اور حضرت ابراہیمؑ نے پلٹ کر نہ دیکھا کہ یارا ہی نہ تھا دیکھنے کا! آخر ایک رقیق القلب دل کے مالک تھے۔۔۔ وہ قلب جس کی مدح سرائی خود قرآن کرتا ہے، وہ شخصیت جس کا ذکر رب اس محبت سے کرتا ہے کہ خود لفظ ’محبت‘ معتبر ہوجاتا ہے۔
حج کے افعال میں کوئی بحث و تمحیص اور فائدے کی بحث کی اجازت نہیں کہ اس عمل کا کیا فائدہ ہے؟ بس عبدیت کی شان بلاچوں و چرا اطاعت۔۔۔ جس کی مثالیں وہاں کی زمین کے ہرذرّے پر بکھری پڑی ہیں اور جس میں دیدۂ بینا رکھنے والوں کے لیے واضح سبق ہیں کہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے مرد تو کیا اس اْمت کی عورتوں نے بھی کسی خطرے کی پروا نہ کی۔ ایک عورت کے لیے تنہا بیابان صحرا، ایک ننھا شیرخوار وجود۔۔۔ کیا کیا خطرات نہ تھے لیکن اللہ کے دین کی سربلندی ہرخطرے پر غالب رہی۔ حضرت ہاجرہؑ کے اسوے سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ حاجات و ضروریات سب ایک ہستی سے وابستہ کرلی جائیں۔ وہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ اسباب ظاہری پر بھروسا انسان کی مومنانہ شان کے خلاف ہے۔ حضرت ہاجرہؑ کی طرح آج بھی ہر سعی مشکور اور ہر دعا مقبول ہوسکتی ہے، اگر مسبب الاسباب کا حکم ہو تو۔۔۔ کیا سعی کا یہ عمل، صفا و مروہ کے بیچ ریت کے وہ ذرّے جو حضرت ہاجرہؑ کے جذبۂ فدائیت سے مشک بار ہیں، حجاج کرام سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ فروغِ دین کے لیے اپنی محبوب ترین چیزوں کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہ کریں۔ بیوی بچوں کی زندگیاں بھی عبدیت کی راہ میں حائل نہ ہونے دیں۔ ہجرت بھی کرنا پڑے، غریب الدیاری سے بھی سابقہ درپیش ہو تو بھوک اور پیاس کا خوف جدوجہد کے راستے میں مزاحم نہ ہو۔ پتھروں کے دور میں جانے کا خوف قومی حمیت کو نیلام کرنے کا سبب نہ بنے کہ رزق کے خزانوں کی کنجیاں اس کے پاس ہیں جو بے آب و گیاہ وادی میں ’زم زم‘ جاری کرنے پر کل بھی قادر تھا اور آج بھی ہے۔ اسباب کی کوششیں ضرور ہوں مگر ہم اسباب کے غلام نہ ہوں۔ غیرمتزلزل اعتماد اس ذات پر ہو جس نے حضرت ہاجرہؑ و اسماعیلؑ کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ ان سے ایک ایسی نسل چلائی جس نے اْمت مسلمہ کو سرفرازی عطا کی۔
یہ ’سفر عشق‘ ایک انقلاب کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر شعوری طور پر اس سفر کے مراحل اور افعال انجام دیے جائیں تو لاکھوں حجاج کرام، اْمت مسلمہ کے جاں باز سپاہی کے روپ میں سامنے آئیں جو دین کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کردینے کا عزم میدانِ عرفات سے لے کر پلٹیں کہ خانہ کعبہ سے، مسجد نبوی سے، منیٰ سے، عرفات سے، زم زم کے قطروں سے اور خاکِ حرم سے ایک ہی صدا آتی ہے اور وہ صدا ہے۔۔۔ کونوا انصاراللہ، کون ہے اللہ کا مددگار؟