ہمیں کرائم نہیں پرائم منسٹر چاہیے

241

عبدالمعید
منصب جتنا اعلیٰ ہوگا اتنے ہی بلند اخلاق و اوصاف کا تقاضا کرتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی معاشرے میں منصب حوالے کرنے سے پہلے لوگوں کی اخلاقی حیثیت پر سوال اُٹھانا عین فطری و جمہوری مطالبہ ہے، بڑی سادہ سی بات ہے جمہور پر حکم جاری کرنے والے کو تمام لوگوں سے زیادہ اچھا انسان ہونا چاہیے۔ استعداد، اخلاق، اوصاف اور اعمال کے لحاظ سے بہتر انسان کی قیادت اور پیروی نہ صرف دل سے تسلیم کی جاتی ہے بلکہ جمہور اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ ایک چوکیدار کی چوکیداری ہوشیاری اور بہادری سے زیادہ ایمانداری پر چلتی ہے، بے ایمان چوکیدار حفاظت تو درکنار اپنی ہی دکان کو لوٹ لیتا ہے یا حصہ داری کے ساتھ لٹوا دیتا ہے۔



اس مثال کو ریاست پر قیاس کرلیں، ایک ریاست جس کا نظام حکومت پارلیمانی ہو اس کا چیف ایگزیکٹو پرائم منسٹر ہوتا ہے، پرائم منسٹر کشتی کا ناخدا ہوتا ہے، اس کی دیانت، فرض شناسی، مستعدی اور بیداری کشتی کو پار لگاتی ہے، اب اگر نا خدا ہی کشتی میں سوراخ کرنے لگے تو آخر کون ہے جو اسے ڈوبنے سے بچا سکتا ہے، سوائے خدا کے۔ بات بالکل واضح ہے، ایک گھر یا دکان کے لیے چور نہیں چوکیدار چاہیے بالکل اسی طرح ایک ریاست کو کرائم نہیں پرائم منسٹر چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ریاست کا انتخابی نظام آخر اتنا ناکارہ کیوں ہے کہ وہ ایسا پرائم منسٹر منتخب کرتا ہے جو کرائم منسٹر نکل آتا ہے یا پھر یہ عوام کی چوائس کا مسئلہ ہے، وجہ کوئی بھی ہو جب وزیراعظم منتخب ہونے والا شخص کرائم منسٹر بن کر سامنے آئے تو ریاست اور اس کے نظام کو خود اصلاحی کی طرف مائل ہوجانا چاہیے۔



خرابی کی نشاندہی اور خرابی کے سرچشموں پر نظر رکھنے اور اسے دور کرنے کا ایک خود کار نظام ایک ریاست کو کامیابی سے چلانے کا بہترین نسخہ ہے۔ میری تجویز ہے کہ مزید وقت ضائع کیے بغیر ایک خود اصلاحی نظام جلد از جلد وضع کرلیا جائے۔ اس کے لیے ادب، قانون، اخلاقیات، ابلاغ، معیشت اور سماجیات کے ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ مختلف الاہداف تھنک ٹینکس تشکیل دیے جائیں یہ تھنک ٹینک ایسی پالیسیاں بنائیں جو ڈیوٹی پر نہ جانے والے اداروں اور اشخاص کو ریاستی جبر، ڈسپلن اور سخت ضابطوں کی جکڑ بندیوں سے لمحہ بھر کو آزاد نہ ہونے دے۔ سب ایک دوسرے کی حدود کار کا احترام ملحوظ رکھیں۔ اختیارات کے تجاوز سے اجتناب کریں، اپنی ڈیوٹی فرض شناسی، دیانتداری اور قومی جذبے سے سرشار ہو کر انجام دیں، اصول، قانون اور ضابطے کی بالادستی ہو، شخصیات، ادارے، انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ، ذرائع ابلاغ، افواج اور عوام سب ایک سخت ڈسپلن کے پابند ہوں،



کام کرنے اور ایمانداری سے کام کرنے اور دوسروں کے کام میں مداخلت نہ کرنے کا چلن عام ہو، غلط کو اندر سے درست کرنے، بے عمل سست اور ناکارہ کل پرزوں کو پھر سے بحال کرنے کا ایک نظام موجود ہو تو منسٹر منسٹر اور پرائم منسٹر پرائم منسٹر کی ڈیوٹی انجام دیتا نظر آئے گا۔ بالفرض محال اگر کوئی غلط شخص کسی اعلیٰ منصب تک پہنچ بھی جائے تو نظام اتنا طاقتور ہوگا کہ وہ اسے اٹھا کر باہر پھینک دے گا، کڑی سزا کے عمل سے گزرے گا جو دوسروں کے لیے نصیحت و عبرت کی مثال بن جائے گا تا کہ آئندہ کسی کو قوم و ملک کے ساتھ دھوکا کرنے کی جرأت نہ ہو۔
جب ایک ریاست داخلی طور پر ایک خود کار درستی کے نظام کے تحت چلتی ہے تو ناکامی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہم گزشتہ کئی سال سے وطن عزیز کے متعلق یہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے یہ طعنہ ہم کبھی نہ سنتے اگر ہم خود داخلی درستی کا فعال نظام رکھتے۔



باہر یا اندر سے اُٹھنے والی یہ مکروہ صدا اب بھی صدا بصحرا ثابت ہوسکتی ہے، بشرطیکہ ہم ایک ایسا نظام جلد از جلد وضع کرلیں۔ اپنے معاشرے کے چوکیدار سے لے کر صدر، وزیراعظم تک سب کو کڑے ضابطوں کا پابند بنالیں۔ ریاست کے سارے ادارے اپنی ڈیوٹی پر چلے جائیں، خود درستی اور خود احتسابی کا عام ماحول ہو، ہر شخص اپنے فرض کو پہچانے اپنے کام کو ذمے داری اور دیانت داری کے ساتھ انجام دے، اپنے کام کو چھوڑے اور دوسرے کے کام کو چھیڑے نہیں، یہ جو بادی النظر میں ناکامی نظر آرہی ہے یہ ریاست پاکستان کی ناکامی نہیں بلکہ اس گلے سڑے بوسیدہ نظام کی ناکامی ہے جس کا کوئی AUTO CORRECTIVE SWTIC نہیں ہے۔ شخصیات اہم ہوتی ہیں رہنما بھی اہم ہوتے ہیں مگر ایک حد تک کیوں کہ کوئی بھی شخص ناگزیر نہیں ہوتا اسے ایک دن جانا ہوتا ہے، ادارے، نظام، ریاست، شخصیات اور رہنماؤں سے زیادہ اہم ہوتے ہیں کیوں کہ انہیں باقی رہنا ہوتا ہے۔



چناں چہ جب شخصیات خواہ صحیح ہوں یا غلط خود کو ناگزیر سمجھنے لگیں تو ریاست شخصیات تلے دب جاتی ہے وہ ریاست کے آگے خود کو بے پناہ طاقتور محسوس کرنے لگتے ہیں، نتیجہ ریاست کمزور سے کمزور تر ہونے لگتی ہے، کمزور ریاست کا سارا فائدہ غلط قسم کے صاحبان اقتدار اور سارا نقصان عوام کے حصے میں آتا ہے۔ ریاست کا کمزور ہونا ایک المیہ ہے لیکن شخصیات کا طاقتور ہونا اس سے بھی بڑا المیہ ہے، اس معاملے کو اُلٹا کرنا ضروری ہے یعنی ریاست طاقتور ہو اور افراد ریاست کے مفاد کے تابع ہوں۔
آپ نے ایک فقرہ سنا ہوگا ’’ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے‘‘۔ یقیناًریاست ایک عظیم رتبے اور مقام کی حامل ہوتی ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست ایک طرف تو ماں جیسے احترام، اکرام اور خلوص و محبت کا تقاضا کرتی ہے تو دوسری طرف یہ ریاست اپنے باشندوں سے ماں جیسے پیار و محبت اور دیکھ بھال کا معاملہ کرتی ہے،



یہی دوطرفہ سلوک ایک اچھا، خوشحال، زندہ اور ذمے دار معاشرہ جنم دیتا ہے جس میں طاقت کا توازن عدل و انصاف کے ساتھ ریاست کے پاس ہوتا ہے جب کہ باشندگان ریاست مساویانہ نظام زندگی، عادلانہ معاشرت، تعلیم، ترقی اور معاشی تگ و دو کے یکساں مواقعے رکھنے والی خوشگوار زندگی کا لطف اُٹھاتے ہیں۔
ریاست کو ماں جیسے برتاؤں کے لیے تیار کرنا کسی ایک فرد، کسی ایک ادارے یا کسی ایک کمیونٹی کے بس کی بات نہیں یہ پورے معاشرے کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ ریاست کو ماں جیسا بنانا بھی ہم سب کی ذمے ہے اور اسے ماں کے بجائے ڈائن بنادینا بھی ہمارا مشترکہ فعل ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ماں بچوں کو سینے سے لگا کر رکھتی ہے اور ڈائن بچوں کو ہی کھا جاتی ہے کیوں کہ ڈائن نما ریاست میں ہی تو کرائم منسٹر پیدا ہوتے ہیں۔