کیا یہ اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے کیونکہ پاکستان میں اور کوئی ادارہ تو ایسا نہیں جو کسی فیصلے پر اثر انداز ہوسکے۔ گزشتہ دنوں نواز شریف نے بھی ایسا اشارہ دیا تھا کہ ان کے خلاف عدالت اور طاقت نے گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ طاقت سے مراد واضح طور پر فوج تھی۔ اب عدالت عظمیٰ بھی یہ کہہ رہی ہے کہ نیب کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے جسٹس دوست محمد کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق پر مشتمل 3 رکنی بینچ ڈاکٹر عاصم کی درخواست کی سماعت کررہاتھا کہ ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔ عدالت عظمیٰ نے عدالت عالیہ سندھ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر عاصم کی درخواست منظور کرلی اور اب وہ علاج کروانے کے لیے ملک سے باہر جاسکتے ہیں۔ وہ واپس آتے ہیں یا نہیں، یہ بعد کی بات ہے۔ عدالت کے حکم پر 60 لاکھ روپے زر ضمانت جمع کرواکر وہ ایک ماہ کے لیے علاج کروانے کی غرض سے ملک سے باہر جاسکتے ہیں اور جب واپس آئیں گے تو ان کا نام پھر ای سی ایل میں ڈالا جاسکتا ہے۔
ممکن ہے کہ ڈاکٹر عاصم کو اپنا علاج کروانے میں کئی ماہ لگ جائیں اور یوں بھی ہوا ہے کہ علاج کے بہانے جو ملک سے باہر گیا وہ پھر پلٹ کر نہیں آیا۔ آمر جرنیل پرویز مشرف کی مثال سامنے ہے ان کے بارے میں عدالت بھی یہ تبصرہ کرچکی ہے کہ کمر کی تکلیف کا علاج کروانے گئے تھے اور باہر جاتے ہی ان کی کمر ایسی ٹھیک ہوئی کہ رقص کرتے ہوئے یعنی کمر لچکاتے ہوئے نظر آئے۔ جہاں تک ڈاکٹر عاصم حسین کا تعلق ہے تو وہ ضیا ء الدین کے نام سے دو اسپتالوں کے مالک ہیں اور خود بھی ڈاکٹر ہیں لیکن شاید ان اسپتالوں میں ان کا علاج نہیں ہوسکتا۔ عجیب بات ہے کہ فوجی حکومت ہو یا سول، پاکستان میں ایسے معیاری اسپتال ہی قائم نہیں کیے گئے جہاں حکمرانوں کا علاج بھی ہوسکے۔ نواز شریف اپنا آپریشن بھی ملک سے باہر جاکر کرواتے ہیں اور اب ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کا علاج بھی بیرون ملک ہورہاہے حالانکہ پاکستان میں سرطان کے علاج کے لیے شوکت خانم اسپتال ایک معیاری اسپتال ہے لیکن وہ ایک سیاسی دشمن کا قائم کردہ ہے۔
بہر حال عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے مذکورہ تبصرے ڈاکٹر عاصم کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کیے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہناتھا کہ نیب دل سے کام کرتا تو اب تک مقدمہ ختم ہوجاتا۔ احتساب عدالت میں اب تک ٹرائل مکمل کیوں نہیں ہوا۔ لگتا ہے نیب خود کیس کو طول دینا چاہتاہے۔ ڈاکٹر عاصم کو 26 اگست 2015ء کو اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے ایک اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ 27 اگست کو انہیں رینجرز نے دہشت گردوں کے علاج کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ دریں اثنا عدالت عالیہ سندھ نے بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ نیب کرپشن کرنے والوں کے خلاف تفتیش میں بے جا تاخیر کررہاہے۔ انکوائریاں کمزور کرنے کے لیے ملزمان سے ساز باز ہورہی ہے۔ اب اگر نیب یہ سب کچھ کررہاہے تو کیا وہ خود ایک مجرم نہیں بن گیا؟اس نے ادارے بھی تباہ کیے، مجرموں کو سہولت بھی فراہم کرتا ہے، انکوائریاں کمزور کرکے ملزمان کو فائدہ پہنچاتا ہے، بے جا تاخیر کرتا ہے، ملزمان کو چھوڑنے کے لیے پکڑا جاتا ہے۔
اگر یہ سب ہورہاہے تو اس ادارے کو بند کردیا جائے اور کسی اور ادارے سے اس کے خلاف تحقیقات کرائی جائے۔ سابق صدر آصف زرداری پر 19 سال مقدمہ چلتا ہے اور اس عرصے میں ریکارڈ غائب ہوجاتا ہے۔ زرداری بری ہوجاتے ہیں تو اس کا ذمے دار کون ہے؟ عمران خان بھی آصف زرداری کو کلین چٹ ملنے پر چیئرمین نیب پر برہم ہیں کہ قوم ان کو معاف نہیں کرے گی۔ ایسے کھیلوں میں قوم کو تو معاف ہی رکھیے۔اب تو عدالتوں کے فیصلوں کے بعد سڑکوں پر عدالت لگاکر قوم سے فیصلے کروائے جارہے ہیں۔ کہا جارہاہے کہ ہم عدالتوں پر اعتراض نہیں کرتے اور فیصلے پر اعتراض کرنا ہمارا حق ہے۔ یہ عجیب منطق ہے۔