گو کہ طالبان کا اختیار نصف سے زیادہ ملک پر ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں افغان طالبان کو اپنے مفتوحہ علاقے چھوڑ کر پاکستان میں پناہ لینے یا قیام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ امریکا پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہے کہ اس سے نبرد آزما افغانوں کو پاکستان میں محفوظ جنت فراہم کی گئی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ خود امریکا نے افغانستان کو اپنے لیے جنت اور وہاں کے عوام کے لیے جہنم کیوں بنا رکھاہے۔ 16 برس سے تو یہ بھی ہورہاہے کہ پاکستان کے اندر جہاں بھی امریکا کو طالبان یا ایسے ہی کسی گروپ کی موجودگی کا شائبہ بھی ہوتا ہے تو میزائل دے مارتا ہے۔ میزائلوں کی آنکھیں نہیں ہوتیں چنانچہ بے گناہ افراد بھی شہید ہوتے رہے ہیں۔ ڈماڈولا کی مثال سامنے کی بات ہے۔ خود افغانستان میں بھی امریکا کسی شادی کی تقریب یا جلوس جنازہ کو نشانہ بناچکا ہے۔ کوئٹہ اور پشاور میں امریکی ایجنٹ بھی سرگرم ہیں۔
قومی اسمبلی کی قراردادمیں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ امریکی جنگ سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے جانی نقصان الگ ہے امریکی صدر دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان کو اربوں ڈالر دیے جارہے ہیں، اب یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھے گا۔ اس کا جواب پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ دے چکے ہیں کہ امریکا اپنی امداد اپنے پاس رکھے۔ امریکی صدر ذرا حساب لگاکر یہ تو بتائیں کہ ایک آزاد و خود مختار ملک افغانستان پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے امریکی عوام کے کتنے ہزار کھرب ڈالر ضائع کردیے گئے اور بے مقصد جنگ میں کتنے امریکی مروادیے گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی انتظامیہ کی حماقت اور نا اہلی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہے ہیں۔ اب امریکا بھارت کو افغانستان میں داخل کررہا ہے۔ پاکستان کو نیچا دکھانے کے شوق میں شاید بھارتی دہشت گرد حکومت کو یہ بات بھی سمجھ میں نہ آئے کہ افغانستان پر غیر ملکی تسلط کے خلاف لڑنے والے افغانوں نے سوویت یونین کو ٹکنے دیا نہ امریکی قیادت میں 40صلیبی ممالک کو کامیاب ہونے دیا ۔
وہ بھارت کو کیا خاطر میں لائیں گے۔ امریکا تو افغانستان میں موجود معدنی ذخائر لوٹنے کی فکر میں ہے لیکن بھارت کو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ قومی اسمبلی کی قرارداد میں واضح کردیاگیا ہے کہ کسی بھی قسم کی جارحیت پر پاکستان بھرپور مزاحمت کرے گا۔ ایوان بالا نے بھی پالیسی گائیڈ لائن کی منظوری دے دی ہے۔ صدر ٹرمپ کی دھمکیوں پر پارلیمان، حکومت اور فوج یکسو ہیں اور عوام بھی متفق ہیں۔ قومی اسمبلی کی قرارداد میں اہم بات یہ کہی گئی ہے کہ طالبان افغانستان میں ہیں چنانچہ افغان حکومت اور امریکا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے بجائے خود ان سے نمٹیں۔ پارلیمان کی قرارداد کے بعد امریکا کے حوالے سے حکمت عملی طے کرنے کے لیے ذیلی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان امریکا کو سبق سکھانے کے لیے اپنی فضائی اور زمینی حدود امریکا پر بند کر دے گا یا یہ محض دھمکی ہے۔
افغانوں کو قتل کرنے کے لیے پاکستان کے راستے سے امریکی رسد پر تو فوری پابندی لگادینی چاہیے۔ ویسے بھی یہ اسلام کے خلاف ہے کہ مسلمان بھائیوں کی ہلاکت کے لیے کسی مسلم دشمن ملک کی معاونت کی جائے۔ پاکستان کب سے اپنے بھائیوں کے قاتلوں کے ہاتھ مضبوط کررہاہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کو آج پتا چلا کہ ’’امریکا کو جب بھی موقع ملا ہمیں دھوکا دیا۔‘‘ امریکا نے تو 1965ء کی پاک بھارت جنگ ہی میں بتادیا تھا کہ وہ پاکستان کا دوست نہیں۔ اور پھر بار بار یہی بتاتارہا لیکن ہمارے حکمران نہیں سمجھ پائے یا ذاتی مفادات کو مد نظر رکھا۔