قیام پاکستان کی جدوجہد اپنی اصل میں ایک نظریاتی اور سول جدوجہد تھی۔ اس کی وجہ تھی کہ 1940ء سے 1947ء تک کے عرصے میں ہماری کوئی فوج ہی نہیں تھی۔ فوج نہیں تھی اس لیے تحریک پاکستان میں جرنیلوں یا فوجیوں کا بھی کوئی کردار نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود جرنیل سپریم کورٹ کی اصطلاح میں خود کو پاکستان کے ’’گارڈ فادر‘‘ کی طرح دیکھ رہے تھے۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکا کے ساتھ ’’خفیہ رابطہ‘‘ استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ خفیہ پیغامات کے ذریعے امریکا کو بتارہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان ملک کو تباہ کررہے ہیں لیکن فوج انہیں ایسا نہیں کرنے دے گی۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ناگزیر ہے کہ 1954ء تک پاکستان کے سیاست دانوں میں نہ کوئی بھارت کا ایجنٹ تھا، نہ امریکا کا پٹھو تھا۔ اس وقت تک آصف زرداری اور شریف خاندان کی کرپشن بھی ’’ایجاد‘‘ نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت تک سیاست دانوں میں سوویت یونین کے ’’گُرگے‘‘ بھی نمودار نہ ہوئے تھے۔
سیاست دانوں کی ’’نااہلی‘‘ بھی نئی نئی تھی۔ مگر اس کے باوجود جنرل ایوب امریکا کے جوتے چاٹتے ہوئے سیاست دانوں کا ذکر اس طرح کررہے تھے جیسے انہوں نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل ایوب صرف امریکا سے سیاست دانوں کی برائی کرکے نہیں رہ گئے بلکہ انہوں نے 1958ء میں ملک و قوم پر مارشل لا مسلط کردیا۔ یہ جرنیل گردی کی ابتدا تھی۔ جسے بعد کی فوجی بغاوتوں نے ایک افسوس ناک روایت یا ایک باضابطہ ادارے کی شکل دے دی۔ چناں چہ قوم کو ایوب گردی کے بعد یحییٰ گردی، ضیا گردی اور مشرف گردی کی ذلت بھی سہنی پڑی۔ لیکن بدقسمتی سے ملک کے سول حکمرانوں نے بھی گردیاں ایجاد کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ جرنیلوں کا ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حب الوطنی کی آڑ میں اقتدار پر قبضہ کرلیتے ہیں مگر وہ عوام میں مقبول نہیں ہوتے۔ چناں چہ انہیں طاقت پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔
مگر ذوالفقار علی بھٹو حقیقی معنوں میں عوام میں مقبول تھے۔ لوگوں کی بڑی تعداد انہیں ’’صاحب نظر‘‘ اور ’’نجات دہندہ‘‘ سمجھتی تھی۔ وہ ایک حکمت عملی کے تحت اینٹی انڈیا تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے، ان کا نعرہ تھا کہ اگر ہمیں بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال بھی جنگ کرنی پڑی تو کریں گے۔ وہ اینٹی انڈیا ہی نہیں ’’اینٹی امریکا‘‘ بھی تھے اور یہ بات بھی عوام میں مقبول تھی، مگر اس کے باوجود دیکھتے ہی دیکھتے بھٹو دور ’’بھٹو گردی‘‘ میں تبدیل ہوگیا۔
سندھ کے شہری علاقوں باالخصوص کراچی میں ’’الطاف گردی‘‘ اور ’’ایم کیو ایم گردی‘‘ نے ماضی کی تمام گردیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے عروج کے زمانے میں کراچی کے پریس کیا پورے پاکستان کے پریس میں ایک سطر بھی ایسی نہیں لکھی گئی جو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف ہو۔
کراچی میں صرف روزنامہ جسارت ایک ایسا اخبار تھا جو خفیہ اداروں کی سرپرستی کے بغیر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف قلمی جہاد کرتا رہا۔ جماعت اسلامی اور باالخصوص اسلامی جمعیت طلبہ نے اپنے اپنے محاذوں پر الطاف گردی، ایم کیو ایم گردی اور اے پی ایم ایس او گردی کا مقابلہ کیا۔ الطاف گردی اور ایم کیو ایم گردی کے خلاف آواز اُٹھتی تو کیسے؟۔ ریاستی ادارے خود الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی طاقت کو ’’پوج‘‘ رہے تھے۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ کورکمانڈر کراچی کی حیثیت سے اے پی ایم ایس او اور پی ایس ایف کے درمیان اغوا شدہ کارکنوں کا ’’تبادلہ‘‘ کرارہے تھے۔ حالاں کہ انہیں الطاف حسین اور ایم کیو ایم گردی پر ہاتھ ڈالنا چاہیے تھا۔ (ن) لیگ کے مرکزی رہنما عبدالقادر بلوچ نے اپنے ایک حالیہ ٹیلی ویژن پروگرام میں پوری قوم کو بتایا کہ وہ جب سندھ رینجرز کے سربراہ تھے تو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو میں داخل ہونے سے قبل ان کی بھی ’’تلاشی‘‘ لی جاتی تھی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بڑے بڑے ریاستی اداروں کے بڑے بڑے اہلکار اگر یہ کررہے تھے تو عام صحافی اور عام لوگ الطاف اور ایم کیو ایم گردی کا مقابلہ کیسے کرتے؟۔
میاں نواز شریف نے حال ہی میں اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے جو کچھ کیا وہ نواز گردی یا شریف گردی کے سوا نہیں تھا۔ پاکستان میں عدالتوں کی تاریخ افسوس ناک ہے اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں سے اختلاف دوسروں کی طرح نواز شریف کا بھی حق تھا۔ مگر انہوں نے ’’گھر واپسی‘‘ کی مہم میں عدالت سے اختلاف نہیں کیا بلکہ عدالت عظمیٰ کو نفسیاتی، جذباتی اور ادارتی سطح پر منہدم کر ڈالا۔ نواز شریف نے جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں بھی عدالت عظمیٰ پر حملہ کرایا تھا مگر یہ حملہ دو ڈھائی گھنٹے کی کارروائی تھا۔ مگر گھر واپسی کی مہم میں میاں صاحب چار دن تک عدالت عظمیٰ پر گولہ باری کرتے رہے۔
ملک میں گردیوں کی تاریخ کی تازہ ترین کڑی لاہور میں وکلا گردی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے توہین عدالت کے مقدمے میں ہائی کورٹ بار ملتان کے صدر کا لائسنس معطل کرکے ان کی گرفتاری کا حکم دیا تو سیکڑوں وکلا لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پر چڑھ دوڑے۔
انہوں نے چیف جسٹس کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے عدالت کا ایک دروازہ توڑ ڈالا۔ انہوں نے چیف جسٹس کے خلاف نعرے بازی کی۔ بعض اطلاعات کے مطابق انہوں نے چیف جسٹس کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی۔ لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے چیف جسٹس کو بچانے اور وکلا کو منتشر کرنے میں کامیاب رہے۔ اس صورت حال کی کئی ممتاز وکیلوں نے مذمت کی مگر ایک معروف وکیل نے ٹیلی ویژن کے ایک ٹاک شو میں کہا کہ مسئلہ صرف وکلا گردی کا نہیں ’’جج گردی‘‘ کا بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض جج صاحبان اپنی عدالتوں میں وکیلوں کی توہین کرتے ہیں، لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں محنت کشوں کی انجمنیں ’’مزدور گردی‘‘ کی علامت بن گئی تھیں۔ ہم نے اسکولوں، کالجوں، جامعات یہاں تک کہ مدارس میں استاد گردی کے درجنوں واقعات دیکھے اور سُنے ہیں۔ کراچی کے ’’مہنگے‘‘ اور ’’بڑے اسکولوں‘‘ میں عرصے سے ’’طالب علم گردی‘‘ عروج پر ہے۔ جیسے ہی کوئی استاد طالب علم پر ہاتھ اُٹھاتا ہے اسے نوکری سے باہر کیا جاتا ہے۔
اس لیے کہ اسکول مالکان طالب علم کو طالب علم نہیں اپنا ’’صارف‘‘ اپنی دکان کا ’’گاہک‘‘ اور ’’کلائنٹ‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے معاشرے میں ’’شاعر گردی‘‘ بھی ہوتے دیکھی ہے۔ شاعروں کے گروہ گروہی بنیاد پر شاعروں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ مشاعروں میں ’’داد‘‘ بھی سیاسی بنیاد پر بروئے کار آتے دیکھی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان گردیوں کا سبب کیا ہے؟۔
ہمارے حکمران طبقات کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی ذہنیت انگریزوں کی ذہنیت کا تسلسل ہے۔ انگریز خود کو آقا اور برصغیر کے عوام کو غلام سمجھتے تھے اور وہ غلاموں سے بدترین سلوک کو اپنا حق گردانتے تھے۔ ہمارے حکمران بھی خود کو آقا اور عوام کو غلام سمجھتے ہیں۔ ان کی ’’آقائیت‘‘ کی سب سے بڑی علامت طاقت ہے اور وہ اپنی ’’گردی‘‘ کے ذریعے کسی نہ کسی قسم کی طاقت ہی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہماری زندگی کی ایک مشکل یہ ہے کہ اس کا کوئی اخلاقی اصول ہی نہیں۔ اخلاقی اصول ہوتا تو کبھی کبھی اجتماعی معاملات میں اخلاقی اصول کو بھی بروئے کار آتے دیکھا جاتا۔ جو کہ ہماری زندگی کی اخلاقی اصول کے تابع نہیں اس لیے ہماری اجتماعی اور ریاستی زندگی میں طاقت کے استعمال کے مظاہر عام ہیں۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسئلہ پیدا ہوتا تو گفتگو اور مکالمے کے ذریعے بھی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مکالمہ تہذیب کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے۔ مگر ہمارے یہاں کوئی طبقہ بھی مکالمے کا قائل نہیں اور بدقسمتی سے مکالمے کی نوبت بھی آتی ہے تو جنگ اور کسی نہ کسی قسم کی گردی کے بعد۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں علم اور تہذیب کا شعور انتہائی پست ہے۔ ہمیں گفتگو اور مکالمہ یاد بھی آتا ہے تو کمزوری کی حالت میں۔ جب بھٹو صاحب کو معلوم ہوگیا کہ قوم کا ایک بڑا حصہ ان کے خون کا پیاسا ہوگیا ہے اور مارشل لا کسی بھی وقت نمودار ہوسکتا ہے تو انہوں نے پی این اے کے رہنماؤں کو مذاکرات کی دعوت دی۔ اب میاں صاحب کو عدالتی جوتے مار کر نکالا گیا ہے تو انہیں اچانک عظیم مکالمے یا Grand dialogue کی ضرورت کا احساس ہوا ہے۔ اصول ہے جیسی روح ویسے فرشتے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے کہاں مانتے ہیں۔