کیا صفائی کے لیے بھی اختیارات کی ضرورت ہے

277

Edarti LOHعید الاضحی کے تین روز گزر گئے ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی لاکھوں جانور قربان کیے گئے اس مرتبہ عید سے قبل بارش کی وجہ سے بھی تباہی پھیل چکی تھی۔ بلدیہ عظمیٰ اور واٹر بورڈ کی نا اہلی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ یہ معاملہ صرف کراچی کے ساتھ نہیں پورے سندھ میں یہی صورت حال ہے۔ کئی کئی شہر جوہڑ بنے ہوئے ہیں ۔ کراچی کی مثال تو اس لیے دی جاتی ہے کہ یہ سب سے بڑا شہر ہے اور یہاں کی مثال سب ہی دیتے ہیں جب سے کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں، میئر کراچی وسیم اختر اختیارات کا رونا رو رہے ہیں لیکن خاکروب اور واٹر بورڈ کے کنڈی اور والو مین وغیرہ کی تنخواہیں حکومت سندھ کے بجٹ سے ادا ہوتی ہیں ۔ تمام مشینری اور گاڑیوں کے ایندھن کی رقم کا بھی میئر کے اختیارات سے تعلق نہیں لیکن صفائی، کچرا اٹھانے اور شہریوں کو سہولت پہنچانے کے حوالے سے ہر مطالبے کے جواب میں یہی کہا جاتا ہے کہ اختیارات ہی نہیں ہیں۔



عید الاضحی کے تیسرے روز پورے کراچی میں آلائشیں سڑتی رہیں،بڑی بڑی سڑکوں کا آدھا حصہ آلائشوں سے اٹا پڑا ہے۔ اس سے قبل بارش کا پانی پہلے ہی کھڑا سڑ رہا تھا اس میں گٹر کا پانی اور غلاظت بھی شامل ہے۔ پورے شہر میں تعفن ہے یہ روز مرہ کی صفائی نہیں کرتے تو اختیارات کس چیز کے مانگتے ہیں۔ بارش کے دوران میئر کراچی نے ویڈیو ریکارڈ کرائی اور شہر کی حالت پر رننگ کمنٹری کر رہے تھے کہ پانی کھڑا ہے، سمندر تیز ہے، نالوں کی صفائی نہیں ہوئی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ تبصرہ تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔ میئر کا کام تبصرہ کرنا نہیں کام کروانا ہے۔ نالے صاف نہیں ہوئے تو یہ کس کا کام تھا ۔۔۔ میئر صاحب ہر کام کے لیے اختیارات کا رونا ٹھیک نہیں ہے۔