اس فوجی ٹولے نے وائٹ ہاؤس پر تسلط جنرل کیلی کے ٹرمپ کے چیف آف اسٹاف کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد جمانا شروع کیا۔ ان کے تقرر سے پہلے وائٹ ہاؤس میں سخت افرا تفری تھی۔ ایک طرف ٹرمپ کی حکمت عملی کے سربراہ اسٹیو بینن اور دوسری جانب ٹرمپ کے داماد کشنر کے درمیان سخت کش مکش تھی، ایک طرف ٹرمپ کے چیف آف اسٹاف رائنس پر یبس اور ٹرمپ کے بیٹے ٹرمپ جونیر کے درمیاں کھنچا تانی جاری تھی، پھر ٹرمپ کے ترجمان شان اسپائسر بھی اپنے اُلٹے سیدھے بیانات سے مذاق بن کر رہ گئے تھے۔ جنرل کیلی، میرین کور کے سربراہ رہے ہیں، جنوبی کمان کی سربراہی کے بھی فرائض انجام دے چکے ہیں، یورپ میں ناٹو کے سپریم الائیڈ کمانڈر رہ چکے ہیں اور عراق اور جنوبی افغانستان میں جنگ لڑ چکے ہیں۔ جنرل کیلی کا 29 سالہ بیٹا افغانستان کی جنگ میں مارا گیا تھا۔
قومی سلامتی کے مشیر جنرل میک ماسٹر امریکا کی فوجی تاریخ میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اس لحاظ سے وہ دانشور جرنیل کہلاتے ہیں، وہ سینٹرل کمان کے سربراہ رہ چکے ہیں اور افغانستان میں امریکی فوج کی داخلی سلامتی کے کمانڈر بھی رہے ہیں گزشتہ فروری میں جنرل فلن کی برطرفی کے بعد جنرل میک ماسٹر کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے سب سے پہلے اسٹیو بینن کو قومی سلامتی کونسل سے نکالا جنہیں ٹرمپ نے غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے کونسل کا رکن مقرر کیا تھا پھر کونسل میں بڑے پیمانہ پر ردو بدل کی۔
66 سالہ وزیر دفاع جنرل میٹیس جو Mad Dog کہلاتے ہیں، عراق کی جنگ میں حصہ لے چکے ہیں، سینٹرل کمان کی سربراہی بھی کر چکے ہیں، اور ناٹو کی الائیڈ کمان کے سپریم کمانڈر رہ چکے ہیں۔ 91 کی پہلی خلیجی جنگ میں لڑ چکے ہیں اور عراق میں فلوجہ میں امریکی فوج کے کمانڈر رہ چکے ہیں اور جنوبی افغانستان میں جنگ لڑ چکے ہیں۔
جنرل میٹیس نے شادی نہیں کی ہے اسی لیے وہ Warrior Monk کہلاتے ہیں۔ رائنس پریبس کی جگہ جنر ل کیلی کی ٹرمپ کے چیف آف اسٹاف کے عہدہ پر تقرر کے فوراً بعد پچھلے دوماہ کے دوران اس فوجی ٹولہ نے نہایت چالاکی سے ان تمام افراد کو وائٹ ہاؤس سے نکال باہر کیا ہے جو ٹرمپ کی انتخابی مہم سے لے کر اب تک ٹرمپ انتظامیہ کے اہم عمل دار تھے۔ ٹرمپ کو صدر کا انتخاب جتوانے میں یہی افراد پیش پیش تھے اور یہی ٹرمپ کی ’’امریکا فرسٹ‘‘ اور مسلم ممالک پر ویزا کی پابندی کے بارے میں انتہا پسند دائیں بازو کی پالیسی کے علم بردار تھے۔
جنرل مائیکل فلن، جنہیں ٹرمپ نے قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا تھا، روسیوں سے روابط کے بارے میں دروغ گوئی کے انکشاف کے بعد انہیں خود مستعفی ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ جنرل مائیکل فلن کٹر اسلام دشمن مانے جاتے ہیں، انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کے اسٹیج سے تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ:
مسلم عقیدہ اسلامی دہشت گردی کی جڑ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام ایک سیاسی نظریہ ہے اور کینسر ہے۔ مسلمانوں کے امریکا میں داخلہ پر پابندی کے فیصلہ کے پیچھے دراصل جنرل فلن تھے۔
اس فوجی ٹولہ کو سب سے بڑی فتح اس وقت ہوئی جب انہوں نے ٹرمپ کے حکمت عملی کے بے حد با اثر مشیر اسٹیو بینن کو وائٹ ہاؤس سے بے دخل کیا۔ اسٹیو بینن، ٹرمپ کی ناک کا بال سمجھے جاتے تھے بینن، وائٹ ہاؤس میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے، دائیں بازو کے خبروں اور تجزیے کی ویب سائٹ برائٹ بارٹ کے چیف ایڈیٹر تھے اور ٹرمپ کی انتخابی مہم کے روح رواں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کی انتخابی جیت میں بینن کا بڑا ہاتھ تھا۔ انتخاب کے بعد میڈیا کے خلاف ٹرمپ کی جنگ کے پیچھے یہی اسٹیو بینن تھے۔ انہوں نے ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا نعرہ دیا تھا او ر یہ انتہائی قدامت پسند قوم پرست مانے جاتے ہیں۔ اسٹیو بینن غیر ممالک میں امریکا کی فوجی مداخلت کے مخالف رہے ہیں اور افغانستان کی جنگ میں امریکا کے ملوث ہونے کے خلاف ہیں۔ ان کی تجویز تھی کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی جگہ امریکا کے نجی فوجی ٹھیکہ داروں کو تعینات کیا جائے۔ بینن، فرانس میں نسل پرست جماعت، نیشنل فرنٹ، ہالینڈ کی مسلم دشمن جماعت فریڈم پارٹی، برطانیہ میں نسل پرست پارٹی UKIP اور ہندوستان میں نریندر مودی کے زبردست حامی سمجھے جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اسٹیو بینن اور ان کے ہم نواؤں کا اثر تھا کہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ افغانستان سے امریکی فوجوں کی مکمل واپسی کے حامی تھے اور اس طویل جنگ کو ترک کرنے کے حق میں تھے جس پر اب تک امریکا کے کھربوں ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔
ٹرمپ نے گزشتہ ماہ اچانک اپنی انتخابی مہم کے موقف کے برعکس، افغانستان میں مزید امریکی فوج بھیجنے اور جنگ جاری رکھنے کے بارے میں اپنی نئی حکمت عملی کا جو اعلان کیا، بلا شبہ اس کے پیچھے ان ہی تین جرنیلوں کے ٹولے کا ہاتھ تھا جو افغانستان کی جنگ جاری رکھنے کے زبردست حامی ہیں۔ ان جرنیلوں کی رائے ہے کہ امریکی فوجیں، اس وقت بے حد اہم فوجی اور جغرافیائی گڑھ افغانستان میں، قدم جمائے ہوئے ہیں یہ موقع پھر کبھی امریکا کو نصیب نہ ہوگا۔ مشرق میں چین ہے، شمال میں وسط ایشیاء اور روس ہے، جنوب میں برصغیر ہے اور مغرب میں ایران ہے۔ افغانستان کی فوجی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس کی سرحدوں کے قریب تین جوہری طاقتیں ہیں۔ چین، پاکستان اور ہندوستان۔ ایران بھی افغانستان کی سرحد پر ہے جس کے جوہری طاقت بننے کا ہر لمحہ خطرہ یا امکان ہے۔ پھر افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کی بدولت سی پیک پر امریکا کا نشانہ رہ سکتا ہے۔ امریکا کسی صورت میں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ افغانستان میں تین ٹریلین ڈالر مالیت کے سونے، چاندی، پلاٹینیم اور دوسری معدنیات کا بھی خزانہ ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ امریکا نے افغانستان کی ناکام جنگ پر پچھلے سولہ سال کے دوراں سات سو ارب ڈالر گنوائے ہیں لہٰذا اب وقت ہے کہ امریکی کارپوریشنز افغانستان کی اس معدنی دولت سے فائدہ اٹھائیں۔
فوجی ٹولے کے ایماء پر ٹرمپ کی افغان پالیسی میں عمداً یہ اعلان نہیں کیا گیا کہ کتنی امریکی فوج افغانستان بھیجی جائے گی اور کتنے عرصہ تک امریکی فوج وہاں رہے گی۔ فوجی ٹولے کے نزدیک افغانستان میں امریکی فوجوں کا طویل تسلط ہی دراصل اس جنگ کی جیت ہے اور در حقیقت جرنیلوں کا بنیادی مقصد افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی بر قرار رکھنا ہے۔ امریکیوں کے نزدیک دہشت گردی کا مسئلہ اہم نہیں ہے اور نہ پاکستان میں طالبان کی کمین گاہ مسئلہ ہے اصل مسئلہ افغانستان پر فوجی تسلط کا جواز تراشنا ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکا نے افغانستان کی جنگ کو طالبان کے ساتھ صلح کے مذاکرات کے ذریعہ ختم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ مذاکرات کے بارے میں طالبان کی پیشکش سے انکار کیا ہے۔ بش کے دور میں طالبان نے عملی طور پر ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کی تھی لیکن افغانستان میں فوجی موجودگی کے جواز کے لیے امریکا نے یہ جنگ جاری رکھی۔ پھر 2009میں جب افغانستان میں طالبان کمزور پڑ گئے تھے اور وہ صلح کے مذاکرات کے لیے تیار تھے، صدر اوباما نے یکایک افغان جنگ کو اپنی جنگ بنا کر 30000 امریکی فوجی افغانستان میں جھونک دیے۔ امریکا کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول کے مشیر لیری ولکرسن نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکا افغانستان میں اگلے پچاس برس تک رہے گا۔ تمام قرائین اس پیش گوئی کے سچ ثابت ہونے کے نظر آتے ہیں۔