سوال یہ ہے کہ برکس ممالک کو ا پنے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے دہشت گردی کے مبینہ منصوبوں اور امریکا و بھارت کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروپوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں۔ پہلے مرحلے ہی میں صرف پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کی فکر کیوں ہوئی۔ چین میں کئی تنظیمیں دہشت گردی کرتی ہیں۔ بھارت دہشت گردوں کی جنت بنا ہوا ہے۔ زیر زمین معیشت چلانے کے حوالے سے بھارتی ڈان اور بھارتی گروپ مشہور ہیں۔ یہ گروپس دبئی میں بیٹھ کر دنیا بھر میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں جنوبی افریقا والا گروپ سرگرم ہے مگر اس اعلامیے میں اس کا ذکر نہیں ہے صرف ان پاکستانی تنظیموں کا ذکر ہے جن کا نام پہلے بھی بھارت اور امریکا لیتے رہے ہیں۔ اعلامیے میں یہی کہا گیا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث اور ان کا انتظام کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اس اعلامیے میں داعش تحریک طالبان پاکستان اور حقانی نیٹ ورک کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ برکس اجلاس میں افغانستان میں جنگ فوراً بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے اگرچہ ایک بیان کے ذریعے برکس اعلامیے کو مسترد تو کردیا ہے لیکن اس حوالے سے پاکستان نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے عملاً تو امریکی ہدایات کی روشنی اور بھارتی دباؤ میں حافظ سعید نظر بند ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے نام پر کسی کو بھی نشانہ بنادیا جاتا ہے۔ جیش محمد قرار دے کر کسی کو بھی مقابلے میں ماردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی لشکر اور متعدد جیوش پاکستانی اداروں کے نشانے پر ہیں ان کے خلاف بھی کارروائیاں اسی جذبے کے تحت ہوتی رہی ہیں جس کے تحت امریکی جنگ میں پاکستان کود گیا تھا۔ اس اعلامیے میں افغانستان میں جنگ فوراً ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لیکن یہ مطالبہ کس سے کیا جارہا ہے۔ یہ جنگ تو افغانستان میں غیر ملکی طاقتوں اور افواج کی موجودگی کی وجہ سے ہورہی ہے آج کل اس کا سرخیل امریکا ہے۔ برکس اعلامیہ کو واضح طور پر امریکا سے افغانستان میں جنگ بند کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ مطالبہ بھی دوسرے الفاظ میں پاکستان ہی سے کیا جارہاہے جب کہ افغانستان میں امریکی اور بھارتی موجودگی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی تو پھر اعلامیے پر دستخط کرتے ہوئے بھارت کو اعتراض کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اعتراض نہیں کیا گیا۔
اس اعلامیے اور اس کی زباں کو دیکھتے ہوئے پاکستانی حکمرانوں کو خطرات کا اندازہ ہوجانا چاہیے۔ وزیر دفاع خرم دستگیر کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم غیر ضروری طور پر تشویش میں مبتلا نہ ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی تشویش بجا ہے اور حکمران چین کی بانسری بجارہے ہیں۔ یہ حکمران تو بھارتی ٹینکوں کو اپنے سینے سے گزرنے کے بعد پاکستانی سرزمین تک پہنچنے کی بات کرتے تھے اور جب وقت آیا تو ہتھیار ڈال دیے سینہ بچالیا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان اور امریکا کے درمیان لفظی جنگ اور ڈومور کے بجائے نو مور کہنے کی باتیں کی جارہی تھیں۔ برکس اعلامیے کے بعد صورتحال واضح ہوگئی ہے کہ امریکا کو نو مور اور برکس کے لیے ڈومور کی پالیسی جلد اختیار کی جانے والی ہے۔ ہم نے ان ہی سطور میں بہت پہلے واضح کردیا تھا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے لیے امریکا کا کردار چین ادا کرے گا۔ برکس گروپ میں چین کی اہمیت بھی مسلم ہے اور اربوں ڈالر قرضہ دے کر سرمایہ کاری کرنے کے بعد سی پیک کی صورت میں پاکستان چین کے دباؤ میں ہے۔
پاکستان اس اعلامیے کو یوں ہی معمول کا اعلامیہ نہ سمجھے بلکہ نہایت سختی سے ان ممالک سے سوال کرے کہ تمہارے ملک سے دہشت گردوں کی تنظیمیں اور سرکاری افواج دوسروں ملکوں میں دہشت گردی کرتی ہیں۔ بھارتی فوج پاکستان میں دہشت گردی کررہی ہے، کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے، چینی فوج بھی دنیا کے کئی ملکوں میں داخل ہوچکی ہے۔ ان ممالک کو پہلے اپنی افواج کو اپنی سرحدوں میں واپس بلانا چاہیے۔ برما میں جو کچھ ہورہاہے کیا لشکرطیبہ اور جیش محمد نے اس سے زیادہ لوگوں کا خون بہایا ہے ؟کیا دنیا کے معاشی نظام کو محض مبینہ دہشت گرد تنظیمیں ہی تباہ کررہی ہیں؟ جو تنظیمیں اور افواج کھلے عام بدامنی پھیلارہی ہیں اور دہشت گردی کررہی ہیں ان پر برکس کو تشویش کیوں نہیں ہوئی۔ پاکستانی حکومت اگرچہ اس اعلامیے کو مسترد کرچکی ہے لیکن مستقبل کی نقشہ گری کرنے والوں کے عزائم سے آگاہ اور ہوشیار رہنا بہت ضروری ہے۔