سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نااہل ہونے کے بعد جلسے جلوسوں سے دل بہلاتے رہے ۔ انہیں یقین ہے کہ وہ پورے پاکستان کا دورہ کرکے عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ وہ کرپٹ نہیں، انہوں نے کوئی لوٹ مار نہیں کی اور عدالت عظمیٰ نے بھی انہیں کرپٹ نہیں کہا۔ عوام نظام عدل سے لاکھ بدظن اور بدگمان سہی مگر وہ یہ ماننے پر ہرگز آمادہ نہیں کہ عدالت عظمیٰ ایک منتخب وزیراعظم کو ناکردہ جرم کی سزا سنائے کیوں کہ یہ سلوک تو عام آدمی کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔
شریف فیملی کے بھولپن نے ثابت کردیا ہے کہ لاہوری واقعی بھولے بادشاہ ہیں۔ میاں نواز شریف شہر شہر قریہ قریہ جا کر عوام سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کا کیا قصور ہے؟ انہیں کیوں نکالا گیا ہے؟ میاں نواز شریف کے کارکن یہ نعرہ بھی لگارہے ہیں کہ یا اللہ! یا رسول۔ میاں نواز شریف بے قصور۔
عوام پر تو اس نعرے کا کوئی اثر نہ ہوا مگر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں مسلم لیگ نواز والے اتنے نااہل ہیں کہ اپنے قائد سے اظہار عقیدت کے لیے کوئی موثر نعرہ بھی تخلیق نہیں کرسکتے۔ اس معاملے میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اچھی بات کوئی بھی کہے اسے اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں، پیپلز پارٹی روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ووٹ مانگتی ہے مگر یہ بھول جاتی ہے کہ اس نے یہ نعرہ عوامی نیشنل پارٹی سے مستعار لیا ہے، بھٹو مرحوم ولی خان سے ملے تھے اور رکنیت طلب کی تھی مگر ولی خان نے کہا تھا۔ تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، کہیں اور قسمت آزماؤ، وہاں سے واپس تو آگئے مگر روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لے آئے۔خود پی پی نے 1988ء میں ’’یا اﷲ یا رسول بے نظیر بے قصور ‘‘ اور ’’اوپر اﷲ نیچے تیر وزیراعظم بے نظیر‘‘ کے نعرے لگائے تھے۔
میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ پانچ افراد نے انہیں وزیراعظم ہاؤس سے نکال کر بائیس کروڑ عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی ہے۔ میاں صاحب! یہ توہین تو آپ بڑے تواتر اور مستقل مزاجی سے کرتے آئے ہیں عوام نے آپ کو اینٹی پی پی ووٹ دیا تھا مگر آپ نے بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ عوامی مینڈیٹ پیپلز پارٹی کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ آپ الیکشن کے دوران بڑے خوش کن اور دل آویز نعرے لگاتے ہیں مگر برسراقتدار اپنے وعدے بھول جاتے ہیں۔ اس معاملے میں کسی بھی سیاسی پارٹی کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اس معاملے میں دو قدم آگے ہی ہیں، ان کے نزدیک وعدہ حدیث یا قرآن نہیں ہوتا جس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کے حامی دانش ور انہیں دین دار پاکستانی ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں، چوٹی کا علم تو سبھی کو ہے مگر ایڑی کا معاملہ تحقیق طلب ہے۔ سودی نظام کے خلاف شریعت بنچ نے فیصلہ دیا تو میاں صاحب عدالت عظمیٰ جا پہنچے۔ ارکان اسمبلی کو اپنا دست نگر بنانے کے لیے آئین سازی کرکے مرغ دست آموز بنا ڈالا۔