میانمر مظالم :سراج الحق اتوار کو کراچی میں مارچ کی قیادت کریں گے

531
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن پریس کانفرنس کررہے ہیں

کراچی (اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے ادارہ نورحق میں روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ برما کے مظلوم اور نہتے روہنگیا مسلمانوں پر ’’انسانیت سوز مظالم ‘‘اور ان کی نسل کشی کے خلاف اورمظلوم و نہتے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کراچی میں اتوار 10ستمبر کو امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کی زیر قیادت مزار قائد تا تبت سینٹر احتجاجی و یکجہتی مارچ منعقد کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں شہر بھر میں کیمپ لگائے جائیں گے ،کارنر میٹنگز کا انعقاد کیا جائے گا، علماء کرام و آئمہ مساجد، سیاسی ومذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے افراد سے رابطہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ برما کے مسلمانوں کی امداد کے لیے مساجد کے باہر جھولی پھیلاکر فنڈز جمع کیے جائیں گے، مخیر حضرات و کاروباری طبقہ اور عوام بھرپور تعاون کریں ۔



پریس کانفرنس سے برمی مسلم کمیونٹی کے رہنما مولانا عبد الرشید نے بھی خطا ب کیا ۔اس موقع پر سکریٹری کراچی عبد الوہاب ، نائب امراء برجیس احمد ، ڈاکٹر اسامہ رضی ، سکریٹری اطلاعات زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھے ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور نسل کشی کا معاملہ ہے ۔ دنیا بھر کے انسان اور انسانی حقوق کے علمبردار عالمی ادارے ان انسانیت سوز مظالم کے خلاف ایک آواز ہوجائیں۔مشرقی تیمور ، انڈونیشیا اور جنوبی سوڈان کے معاملے پر ہفتوں میں ریفر نڈم کروا کر ان کو ان کا حق دے دیا گیا افسوس کی بات ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف 14فوجی آپریشن کیے گئے لیکن اس کے خلاف کسی نے آواز نہیں اٹھائی ۔او آئی سی کی ذمہ داری ہے کہ تمام مسلم ممالک کو جمع کرے، برما میں مظالم کے خلاف آواز اور اسلامی سیکورٹی کونسل کا اجلاس بھی بلایا جائے۔انہوں نے کہا کہ مظلوم روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام انسانی حقوق کے علمبردار کے لیے سوالیہ نشان ہے ۔



عالم اسلام کے حکمرانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ صرف ترکی اور ملائشیا نے کھل کر حمایت اور یکجہتی کا اعلان کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 34ممالک کی فوج روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے کیوں نہیں آتی ۔ عالمی بر ادری چند ملکوں اور سامراجی طاقتوں کے شکنجے میں ہے جو ان کے مقاصد کے لیے کام کررہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جو ایک کلمہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا ۔بد قسمتی سے ہمارے حکمران بھی اس اہم مسئلہ پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔حکومت پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھائے اور اپنا کردار ادا کرے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے، روہنگیا مسلمانوں پر تاریخ ساز ظلم ڈھائے جارہے ہیں جہاں عورتوں کی عزت وآبرو کو پامال کر کے انہیں زندہ جلایا جارہا ہے اورمعصوم بچوں کو آگ میں ڈالاجارہا ہے ۔اکیسویں صدی کے دور میں جانوروں اور پرندوں کے حقوق کی بات کرنے والے انسانی حقوق کی پامالی پر کیوں خاموش ہیں ؟



اس وقت اراکان میں انسانی حقوق کی پاما لی کی جارہی ہے امریکہ ، یورپ ، مغرب ممالک سے توقعات رکھنے کے بجائے مسلم حکمران اور مسلم ممالک برماکے مظلوم مسلمانوں کی آواز بنیں ۔بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے برمی مسلمانوں کو قبول کرنے کے بجائے مسترد کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ یو این، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ میانمر میں مسلمانوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت خود خاموش ہے اور ساتھ ہی بین الاقوامی اداروں کو بھی وہاں تک رسائی دینے کے لیے ٹال مٹول کر رہی ہے۔ ایسے میں مسلسل ظلم کا شکار روہنگیا مسلمان بغیر کسی امداد کے زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔انہوں نے کہا کہ آنگ سان سوچی جو کہ نوبل انعام یافتہ میانمر کی حکمران ہیں وہ روہنگیا مسلمانوں کو دہشت قرار دیتی ہیں اور رخائن فسادات کا اصل ذمہ دار انہی کو قرار دیتی ہیں۔ نوبل انعام لینے والی یہ حکمران خاتون ملٹری طاقت کو ختم کروانے میں ناکامی اور ایک ملین مسلمانوں کے حقوق کو نظرانداز کرنے پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کا شکار ہیں۔



ستمبر 2016ء میں کوفی عنان کے ساتھ ملاقات میں آنگ سان نے میانمر کے مسئلے کو حل کروانے کی یقین دہانی کروائی اور اس سلسلے میں ایک کمیشن کا قیام بھی عمل میں لایا گیا لیکن اس کمیشن کو کبھی حقائق تک پہنچنے ہی نہیں دیا گیا۔ حکومت نے صحافیوں اور دیگر امدادی کارکنوں کی رخائن تک رسائی بند کر دی۔ یو این رپورٹرز اور مختلف انویسٹیگیشن ٹیموں کو روہنگیا مسلم علاقے تک رسائی سے روکنے کے لیے انہیں میانمر کے ویزے ہی نہیں جاری کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ1970ء سے اب تک تقریباً ایک ملین روہنگیا مسلمان مظالم کی وجہ سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ تازہ ترین یو این رپورٹ کے مطابق 2012ء سے اب تک ایک لاکھ68 ہزار سے زائد مسلمان نقل مکانی کر کے ہمسائے ممالک جا چکے ہیں۔ اسی طرح 2016ء کے فوجی آپریشن کے نتیجے میں تقریباً 87ہزار مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت پذیر ہوئے۔ اور 2012ء سے 2015ء کے درمیان تقریباً ایک لاکھ 12 ہزار لوگوں نے سمندر کے راستے ملائیشیا جانے کے لیے خطرناک سفر اختیار کیا۔



مولانا عبد الرشید نے کہا کہ 15دنوں میں روہنگیا میں سینکڑوں مساجد کو نذر آتش اور ہزاروں بستیوں کو جلادیا گیا ہے ، ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کے باڈر پر موجود ہیں جنہیں بنگلہ دیشی حکومت داخل ہونے کی اجاز ت نہیں دے رہی۔ ہزاروں شیر خوار بچے پانی نہ ملنے کی وجہ سے شہید ہوچکے ہیں ۔