فی الوقت تو بارش زدہ اور آلائش زدہ کراچی کی بات کرتے ہیں۔ میئر کراچی کو تو کسی بات کا اختیار نہیں ہے لیکن کراچی کے عوام بہت با اختیار ہیں۔ وہ جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں اس سال قربانی ایسی ہوئی کہ بس کچھ نہ پوچھیے۔ ویسے کراچی میں پوچھنے والا کوئی ہے کہاں۔ آلائشیں اٹھانے کے لیے ایک منصوبہ بناکر اخبارات میں اشاعت کے لیے بھیج دیا گیا۔ اخبارات نے بلدیہ کا منصوبہ شائع کردیا اور بلدیہ، اخبارات اور شہریوں نے سمجھ لیا کہ سب کچھ اسی منصوبے کے مطابق ہوگا لیکن جو کچھ ہوا وہ بالکل مختلف تھا۔
کراچی کے تمام ہی علاقوں میں قربانی ہوئی سب سے پہلا کام تو یہ ہوتا ہے کہ قربانی سے ایک ہفتہ قبل کسی بھی سڑک پر ٹینٹ لگاکر راستہ بند کردیا جاتا ہے۔ اگر کسی باہمت نے یہ پوچھ لیا کہ بھائی راستہ کیوں بند کردیا تو راستہ بند کرنے والے نہایت بد تہذیبی سے فرماتے ہیں جاؤ میاں اپنا کام کرو۔ یا نکل یہاں سے یا بتاؤں تیرے کو بڑا آیا راستہ کیوں بند کیا۔ کوئی تھوڑا بہت کم اختیار رکھتا ہو تو غصے میں کہتا ہے کہ کیا قربانی بھی نہ کریں اب ہم ایک ہفتے کے دوران ساری اہم سڑکوں پر ٹینٹ لگے ہوئے اور گائے بکروں کا چارہ پھیلا ہوا ہوتاہے۔ غلاظت ٹینٹ کے اندر سے سمیٹ کر سڑک پر ڈال دی جاتی ہے۔
قربانی والے دن تک ان سڑکوں پر بلدیہ کا وہ ٹرک بھی نہیں آسکتا جس کے پاس وہاں تک آنے کا اختیار ہے۔ اب آیا قربانی کا دن۔۔۔ صبح سے جگہ جگہ خون کے فوارے چھوٹ رہے ہیں۔ جس نے سڑک نہیں گھیری تھی آج اس کی گائے بھی سڑک کے بیچ میں کٹی پڑی تھی۔ ایسے ہی ایک صاحب سے سوال کیا کہ بھائی یہ کیا۔۔۔ راستہ تو چھوڑدو۔ تو ذرا غصہ ہوکر بولے دیکھتے نہیں قربانی ہورہی ہے۔ ہم نے کہا جی وہ تو دیکھ رہے ہیں لیکن قربانی کا مطلب راستہ بند کرنا تو نہیں۔ جواب آیا بھائی جانور ہے کسی بھی سمت گھوم سکتا ہے۔ آپ جائیں کہیں اور سے نکل جائیں۔ راستہ روکنے کے حوالے سے گلستان جوہر میں تو گویا مقابلہ تھا۔ ایک ٹینٹ نے آدھی سڑک گھیری تو دوسرے نے پوری گھیری۔ اس کے دیکھا دیکھی پہلے والے نے بھی پوری سڑک گھیری۔ اب ٹریفک رانگ سائڈ جارہاہے۔ آگے چلیں تو سالڈ ویسٹ والے سڑک کے وسط میں ٹینٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ تصویر اچھی بن رہی تھی۔ دائیں جانب کچرا اور آلائشیں اور بائیں جانب سڑک۔ گلشن اقبال میں تو القدوس اپارٹمنٹ کے عقب میں ہوم لینڈ والوں نے پوری گلی ہی بلاک کردی جو بلاک 13 سی اور بلاک 5 کو ملانے والی واحد سڑک ہے۔ قربانی جو کررہے ہیں۔
بہادر آباد میں ایک صاحب بڑی محنت سے اپنے گھر کے سامنے سے آلائشیں اٹھاکر سامنے والے کی دیوار کے ساتھ پھینک رہے تھے ان سے پوچھا قربانی یہاں آلائشیں وہاں؟ تو کہنے لگے کیا کریں بھائی؟ اور بس، نہیں ابھی بس نہیں ہوا گائے بیل، بکرے وغیرہ کے لیے چارہ آیا تھا۔ تھوڑا فاضل ہوگیا تو کیا کریں۔ اٹھاکر پھینک دو باہر گلی میں۔ یہ کام ایک دو لوگ تو کرتے نہیں لہٰذا سارا شہر سبز چارے چنے کی دالوں اور گھاس بھوسے سے بھرا پڑا ہے کہیں کہیں کچھ بے اختیار لوگوں نے پانی سے سڑک کو دھوکر باقاعدہ چونا ڈالا اور صفائی کروادی۔ لیکن کراچی میں سڑک دھوکر چونا ڈالنے والے کم اور شہر کا مال دونوں ہاتھ دھوکر لوٹنے اور شہر کو چونا لگانے والے زیادہ ہیں۔ یہ کیا تماشا ہے کہ اس شہر سے دو درجن سے زیادہ ارکان صوبائی اسمبلی ایک ہی پارٹی کے ہیں۔ اختیارات کوئی نہیں فنڈز کوئی نہیں ترقیاتی کام کوئی نہیں۔ میئر اسی پارٹی کا ہے، فنڈز کوئی نہیں اختیارات کوئی نہیں اس لیے ترقیاتی کام کوئی نہیں۔ عوام کی تربیت بھی ضروری ہے اور شعور میں اضافے کی ضرورت بھی ہے۔ اب تو یہ باتیں سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ خدمت کے لیے اختیارات کی نہیں جذبے کی ضرورت ہوتی ہے اور شہریوں میں شعور کی ضرورت ہے تاکہ قربانی کے نام پر راستہ روکنے، گندگی پھیلانے کا کام نہ کریں۔