جب ۱۹۶۵ء کی جنگ شروع ہوئی

287

zc_Jilaniگونصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن وہ دن اب بھی ایسے یاد ہیں جیسے کل کی بات ہو کہ کس برق رفتاری سے ہندوستان اور پاکستان، یکے بعد دیگرے واقعات اور ان سے وابستہ اثرات کے نتیجہ میں سنگین مضمرات اور نتائج سے بے خبر، زمین سخت آسمان دور کے مصداق بھر پور جنگ کی مہلک دلدل میں دھنستے جارہے تھے۔
میں اس زمانے میں سرحد کے اُس پار دلی میں جنگ گروپ کے اخبارات کے نامہ نگار کی حیثیت سے تعینات تھا۔
اگست سن پینسٹھ کے پہلے ہفتے سے جنگ کے بادل اسی وقت سے چھانے شروع ہو گئے تھے جب ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کے نام سے چھاپہ مار کارروائی اپنے عروج پر تھی۔ حکومت پاکستان کا اصرار تھا کہ یہ کشمیری ’حریت پسندوں‘ کی کارروائی ہے لیکن ہندوستان کی حکومت کا کہنا تھا کے یہ چھاپہ مار پاکستان کے فوجی ہیں جو جنگ بندی لائین پار کر کے آرہے ہیں۔
اگست کے دوسرے ہفتہ میں دلی میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اب آپریشن جبرالٹر کا دوسرا مرحلہ آپریشن مالٹا کے نام سے شروع ہوا ہے جس کے تحت بڑے پیمانے پر پاکستان کی فوج نے مداخلت شروع کی ہے۔



سولہ اگست کو دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت جن سنگھ نے جس کے بطن سے موجودہ بھارتیا جنتا پارٹی نے جنم لیا ہے، دلی میں عام ہڑتال کا اہتمام کیا تھا اور ایک لاکھ سے زیادہ مظاہرین نے جو ملک کے مختلف علاقوں سے آئے تھے بقول ان کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی بودی پالیسی کے خلاف پارلیمنٹ تک جلوس نکالا ۔ ان مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ کشمیر میں مبینہ دراندازوں کے حملے روکنے کے لیے پاکستان پر حملہ کیا جائے۔ بلاشبہ لال بہادر شاستری کو اس وقت چو مکھی دباؤ کا سامنا تھا۔ ایک طرف ان پر سیاسی مخالفین کا دباؤ تھا دوسری طرف فوج ان پر شکنجہ کس رہی تھی۔
میں دلی میں پارلیمنٹ سے پتھر کی مار کے فاصلے پر رائے سینا ہوسٹل میں رہتا تھا۔ اس ہوسٹل میں زیادہ تر صحافی، آل انڈیا ریڈیو کے براڈکاسٹر اور اعلیٰ سرکاری افسر رہتے تھے۔ اسی ہوسٹل سے ملحق پریس کلب تھا۔ یہ بیس اگست کی بات ہے مشہور بین الاقوامی انقلابی ایم این راؤ کی تحریک کے ترجمان جریدہ ’تھاٹ‘ کے نائب مدیر این مکر جی جو غالباً کافی دیر سے پریس کلب میں بیٹھے تھے میرے کمرے میں آئے۔ وہ چہرے سے سخت اُلجھن میں گرفتار اور باتوں سے پریشانی کا شکارنظر آرہے تھے۔



میں نے پوچھا خیریت تو ہے ؟ کہنے لگے حالات نہایت خطرناک صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور اس بات کا سخت خطرہ ہے کہ فوج اقتدار پر قبضہ کر لے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مرحلہ ہندوستان میں جمہوریت کے لیے کٹھن آزمائش کا ہے۔ پھر خود ہی انہوں نے بتایا کہ انہیں بے حد باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ صبح کابینہ کے اجلاس میں ہندوستا ن کی بری فوج کے سربراہ جنرل جے این چودھری نے شرکت کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ رن آف کچھ کے معرکے میں شکست کے بعد ہندوستانی فوج کے حوصلے بہت پست ہیں اور فوج کے حوصلے بڑھانے کے لیے پاکستان کے خلاف بھر پور فوجی کارروائی لازمی ہے۔ مکر جی صاحب کا کہنا تھا کہ جنرل چودھری نے صاف صاف الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر پاکستان کے خلاف فوری کارروائی نہ کی گئی تو ملک کی سیاسی قیادت کے لیے اس کے نتائج خطرناک ہوں گے جس کے وہ ذمے دار نہیں ہوں گے۔ بلا شبہ لال بہادر شاستری چوبیس اگست کو اس نتیجہ پر پہنچ گئے تھے کہ کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کے جواب میں ہندوستان کو پاکستان کے خلاف بھر پور فوجی کارروائی کرنی ہوگی،



جب انہوں نے لوک سبھا میں اعلان کیا کہ کشمیر میں پاکستان کے در اندازوں کو روکنے کے لیے ہندوستانی فوج جنگ بندی لائن کے پار کارروائی سے دریغ نہیں کرے گی۔
اس اعلان کے دوسرے دن لائن آف کنٹرول کے آر پار لڑائی بھڑک اُٹھی۔ یکم ستمبر کا دن میں نہیں بھول سکتا۔ رائے سینا ہوسٹل میں ایسا لگتا تھا کہ سب نے ریڈیو پاکستان لاہور لگا رکھا ہے جس پر یہ اعلان ہوا کہ ’آزاد کشمیر‘ کی فوجوں نے پاکستانی فوج کی مدد سے چھمب پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس وقت ہوسٹل اور آس پاس اراکین پارلیمنٹ کے بنگلوں اور پارلیمنٹ کے اردگرد پورے علاقہ میں ایک عجب قسم کی خاموشی چھا گئی کہ سوئی بھی زمین پر گرے تو سب اس کی آواز سن لیں۔ ریڈیو پاکستان پر قومی اور فوجی نغمے نشر ہو رہے تھے۔
اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا۔ اللہ اکبر۔



شام کو پرانی دلی گیا۔ ترکمان گیٹ سے جامع مسجد تک تمام گلیوں میں گھروں میں، پان کی دکانوں پر ریستورانوں میں، کبابیوں کے ٹھیوں پر غرض ہر جگہ ریڈیو کھلے ہوئے تھے جن پر ریڈیو پاکستان لاہور اسٹیشن لگا ہوا تھا اور پوری فضا پاکستان کے نغموں سے گونج رہی تھی ۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ دلی نہیں لاہور ہے۔ ۳ستمبرکو جب لال بہادر شاستری نے اپنی نشری تقریر میں دلی اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں بلیک آوٹ کا اعلان کیا تو کسی کو شبہ نہیں رہا تھا کہ دونوں ملکوں میں جنگ کا بگل بج گیا ہے۔ ۵ ستمبر کو جب یہ خبر آئی کہ پاکستانی فوج نے جوڑیاں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ اکھنور سے صرف چھ میل دور رہ گئی ہے تو اسی رات کو دیر گئے ہندوستانی فوج نے بین الاقوامی سرحد پار کر کے لاہور کی سمت پیش قدمی شروع کی۔ چھ ستمبر کو علی الصبح پاکستان ٹائمز کے نمائندے اسلم شیخ نے گھبرا کر ٹیلی فون کیا۔ وہ اور ڈان کے محبوب العالم دلی کے مضافات میں ڈیفنس کالونی میں رہتے تھے۔ دونوں لوک سبھا کے اجلاس سے پہلے میرے کمرے میں آگئے ۔ اس دوران اے پی پی کے نمائندے خلیل بٹالوی بھی جو پٹودی ہاوس میں رہتے تھے آگئے۔ وہ بیس روز پہلے ہی اپنے بیوی بچوں سمیت دلی آئے تھے۔ ہم نے انہیں یہی مشورہ دیا کہ وہ فوراً بیوی بچوں کو لے کر چانکیہ پوری میں پاکستان کے ہائی کمیشن کی عمارت میں پناہ لے لیں۔



یہ اتفاق تھا کہ چند ماہ قبل پرانے قلعہ کے قریب پرانی فوجی بیرکوں میں بکھرے ہوئے، پاکستان ہائی کمیشن کے دفاتر چانکیہ پوری میں نئی عمارت میں جو ابھی زیر تعمیر تھی منتقل ہو گئے تھے۔ ہائی کمشنر میاں ارشد حسین کو جون سن پینسٹھ ہی میں خطرہ تھا کہ اپریل میں رن آف کچھ کے معرکہ میں ہندوستانی فوجوں کی شکست کے بعد ہندوستان، پاکستان کے خلاف انتقامی کارروائی کرے گا، چناں چہ انہوں نے آدھی زیر تعمیر عمارت میں ہائی کمیشن کے دفاتر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ستمبر کی جنگ کے بعد میاں ارشد حسین نے مجھے بتایا تھا کہ دراصل لال بہادر شاستری نے تین جولائی کو انتقامی حملے کا فیصلہ کیا تھا لیکن بعض وجوہ کی بناء پر ملتوی کر دیا تھا۔ اس ملاقات میں میاں ارشد حسین نے رازداری کے وعدہ پر یہ انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے چار ستمبر کو دلی میں ترکی کے سفارت خانہ کے توسط سے پاکستان کے دفتر خارجہ کو خبردار کردیا تھا کہ ہندوستان چھ ستمبر کو بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔



بہرحال صبح ساڑھے دس بجے، میں، اسلم شیخ اور محبوب العالم، لوک سبھا پہنچ گئے۔ مارننگ نیوز کے ٹونی مسکرہنس بھی ہانپتے کانپتے وہاں آگئے۔ ہمیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کے ویت نام، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور سنگا پور اور نہ جانے کہاں کہاں سے امریکی اور دوسرے غیر ملکی صحافیوں کا سیلاب اُمڈ آیا ہے۔
وزیر دفاع وائی بی چوان نے لوک سبھا میں اعلان کیا کہ ہندوستانی فوج پنجاب پر پاکستان کے حملہ کے خطرہ کے پیش نظر سرحد پار کرے لاہور سیکٹر میں داخل ہو گئی ہے۔ اس اعلان پر پورے ایوان میں ہر طرف سے تالیوں کا ایسا شور اُٹھا کہ جیسے ہندوستان نے جنگ جیت لی ہو۔
اس اعلان کے فورا بعد ہم سب چانکیہ پوری میں پاکستان ہائی کمیشن کی طرف دوڑے۔ ہم میں سے ایک جہاں دیدہ صحافی نے بالکل مختلف سمت پارلیمنٹ اسٹریٹ میں اپنے بینک کی راہ لی۔ ان کا یہ اقدام بڑا بروقت اور دانشمندانہ تھا کیوں کہ اسی روز سارے پاکستانیوں کے بنک اکانٹ منجمد کر دیے گئے تھے۔



جب ہم پاکستان ہائی کمیشن پہنچے تو وہاں سخت ہل چل مچی ہوئی تھی اور ریڈیو پر ایوب خان کی تقریر سننے کے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ یوب خان کی تقریر کے بعد میاں ارشد حسین نے سب صحافیوں سے کہا کہ اگر وہ باہر اپنی جان کو خطرہ محسوس کریں تو ہائی کمیشن میں پناہ لے سکتے ہیں۔
خلیل بٹالوی تو پہلے ہی اپنے بیوی بچوں سمیت ہائی کمیشن کی عمارت پہنچ چکے تھے۔ ٹونی مسکرہنس اور محبوب العالم نے بھی ہائی کمیشن منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اب رہ گئے اسلم شیخ اور میں۔ ہم نے کہا کہ صحافی ہوتے ہوئے یہ مناسب بات نہیں ہوگی کہ جنگ کے پہلے ہی دن ہم چانسری کی عمارت میں چھپ کر بیٹھ جائیں۔ چناں چہ ہم ہائی کمیشن سے واپس آگئے۔
دوسرے دن جب ہم لوک سبھا گئے تو دیکھا وزیر دفاع چوان ایوان میں نہیں ہیں۔ ہندوستانی صحافی دوستوں سے پوچھا کہ چوان کہاں ہیں تو ان میں سے کچھ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ لاہور گئے ہیں جہاں وہ جنرل چودھری کے ساتھ لاہور فتح کرنے والے ہندوستان کے فوجی دستوں کی سلامی لیں گے۔



آٹھ ستمبر کی دوپہر کو جب میں اور اسلم شیخ ہائی کمیشن کی عمارت سے نکلے تو ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ ہم دو رویہ ہیج میں چھپتے چھپاتے رائے سینا ہوسٹل کے قریب پہنچے تو راستہ میں اخبارات کے ضمیمے فروخت ہو رہے تھے۔ شہہ سرخیاں تھیں ’لاہور فتح ہو گیا۔ اور ہندوستانی فوج کراچی سے پچیس میل کے فاصلہ پر پہنچ گئی۔ ہمارے حواس باختہ ہو گئے، اسلم شیخ نے سوالیہ انداز سے میری طرف دیکھا اور میں نے اثبات میں سر ہلایا اور ہم نے فیصلہ کرلیا کہ ہم ہائی کمیشن ہی کا رخ کریں۔ اسلم شیخ ہوسٹل میں میرے کمرے میں آئے اور اپنے ملازم کو ٹیلیفون کیا کہ ایک بیگ میں ان کے کپڑے رکھ دے اور یہ کہہ کر نیچے ٹیکسی لے کر اپنے مکان روانہ ہوگئے۔
اسلم شیخ کے روانہ ہوئے دو منٹ بھی نہیں گزر ے تھے کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو دیکھا سی آئی ڈی کے دو افسر کھڑے ہیں انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیے۔ میں نے محسنہ سے کہا کہ تم ہائی کمیشن میں پریس قونصلر انصاری صاحب کو ٹیلی فون کرکے وہاں چلی جاؤ۔



سی آئی ڈی کے افسر مجھے اپنے ساتھ انٹیلی جنس بیورو کے دفتر لے گئے۔ جہاں انہوں نے مجھے انٹرنمنٹ آڈر دیا۔ یہ آرڈر دراصل سن باسٹھ میں چین کے ساتھ جنگ کے دوران تیارکیا گیا تھا جس کے تحت ہندوستان میں رہنے والے چینی باشندوں کو نظر بندی کیمپوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔ مجھے جو حکم دیا گیا تھا اس پر چین کا نام کاٹ کر پاکستان لکھ دیا گیا تھا۔
میں سمجھا کہ اس حکم کے تحت مجھے گھر میں نظربند کر دیا جائے گا لیکن مجھے فورا تہاڑ جیل لے جایا گیا اور جیلر کے حوالہ کر دیا گیا جس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس انٹرنمنٹ آرڈر کے تحت وہ مجھے کس کلاس میں رکھے۔ اتنے میں جیل کے قریب پالم ائر پورٹ پر بلیک آوٹ کا سائرن بجا۔ جیلر نے ہڑبڑا کر کہا کہ اسے قصوری چکیوں میں ڈال دو۔ مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ یہ قصوری چکیاں کیا ہوتی ہیں۔ جب دور جیل کے ایک کونے میں ایک دروازہ کھٹکھٹا کر مجھے ایک سینئر قیدی‘ کے حوالے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ جیل میں خطرناک ترین قیدیوں کو قید تنہائی میں رکھنے کی کوٹھریاں ہیں۔ ان میں،قاتل قیدی بیڑیاں پہنے سلاخوں کا سہارا لیے



سورہے تھے وہ ہڑبڑا کر جاگ اُٹھے۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ میں کون ہوں۔ اس وقت میں پشاوری چپل پہنے تھا۔ کسی قیدی نے یہ چپل دیکھ کر شور مچا دیا کہ پاکستانی کمانڈو پالم ائرپورٹ پر پکڑ کر لایا گیا ہے۔
بہر حال یہ لمبی داستان ہے کہ تہاڑ جیل میں قصوری چکیوں، سی کلاس اور بعد میں بی کلاس میں اکتوبر کے آخر تک دن کیسے گزارے۔ بی کلاس میں پورے ہندوستان کے چین نواز کمیونسٹ رہنما قید تھے جن میں اے کے گوپالن، نمبودری پد اور سرجیت سنگھ بھی شامل تھے۔ انہوں نے چین کے دوست پاکستان کے قیدی کی کیسے پیار سے آؤ بھگت اور خاطر تواضع کی، وہ میں آج تک نہیں بھولاہوں۔