جنات کی حقیقت

136

فرح ارم خان
جن بھی انسان کی طرح ہی اللہ کی ایک قسم کی مخلوق ہے جو آگ سے پیدا کی گئی ہے۔ بنی آدم یعنی نوع انسانی کی طرح ذی عقل اور ارواح واجسام (روح و جسم والا) والی ہے۔ ان میں توالد و تناسل بھی ہوتا ہے یعنی انسانوں کی طرح، ان کی بھی نسل بڑھتی اور پھولتی پھلتی ہے، کھاتے پیتے، جیتے مرتے ہیں، مگر ان کی عمریں بہت طویل ہوتی ہیں۔ ان کی عمریں ہزاروں سال ہوتی ہیں۔
جنات میں مسلمان بھی ہیں کافر بھی، مگر ان کے کفار، انسان کی بنسبت بہت زیادہ ہیں، ان کے مسلمان نیک بھی ہیں اور فاسق بھی۔ البتہ ان میں فاسقوں، بدکاروں کی تعداد بنسبت انسان زائد ہے۔ شریر جنوں کو شیطان کہتے ہیں، ان سب کا سرغنہ ابلیس ہے، جو سب سے پہلے جن ’’مارج‘‘ کے پوتے کا بیٹاتھا۔ ابلیس نے غرور میں آکر حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا اور حکم خداوندی کی نافرمانی کی تھی جس کی وجہ سے راندہ بارگاہ الہٰی ہوا۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مردود کیا گیا، قیامت تک کے لیے اسے مہلت دی گئی۔ اور اسے اس قدر مہلت دینا اس کے اکرام کے لیے نہیں، بلکہ اس کی بلاشقاوت اور عذاب کی زیادتی کے لیے ہے۔
ابلیس کی طرح اس کی ذریت بھی مردود ہے، یہ سب شیاطین ہیں اور انسانوں کو بہکانا ان کا کام ہے، طرح طرح کی ترکیبوں کے ذریعے نیک کام سے روکتے اور برے کاموں کی طرف ترغیب دلاتے ہیں، خدا کے نیک بندے ان کے مکروہ فریب میں نہیں آتے، بلکہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھ کر نیک کاموں میں مصروف رہتے ہیں، لیکن جو ان کے بہکائے میں آجاتے ہیں وہ آخر کار گمراہ ہوجاتے ہیں۔
فرشتوں کی طرح جنوں میں بھی بعض کو یہ طاقت دی گئی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں۔ حدیثوں سے ثابت ہے کہ ان میں کسی کسی کے پر بھی ہوتے ہیں اور وہ ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں، اور بعض سانپوں، اور کتوں کی شکل میں گشت لگاتے پھرتے ہیں اور بعض انسانوں کی طرح رہتے سہتے ہیں، لیکن اکثر ان کی رہائش گاہ بیابان یا ویران مکان اور جنگل و پہاڑ ہیں۔
اسلام سے پہلے بھی عربوں میں جنوں کے تذکرے موجود تھے۔ اس زمانے میں سفر کرتے وقت جب رات ہوجاتی تو مسافر اپنے علاقے کو جنوں کے سردار کے سپرد کرکے سو جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی تخلیق سے قبل دنیا میں جن آباد تھے۔ جن کی آگ سے تخلیق ہوئی تھی اور انھوں نے دنیا میں فتنہ و فساد برپا کر رکھا تھا۔ قرآن میں حضرت سلیمان کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ ان کی حکومت جنوں پر بھی تھی۔ حضرت سلیمان نے جو عبادت گاہیں ’’ہیکل‘‘ بنوائی تھیں۔ وہ جنوں نے ہی بنائی تھیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ انسانوں میں کوئی شخص نہیں کہ جس کے ساتھ ہمزاد جِن اور ہمزاد فرشتہ نہ ہو۔ لوگوں نے عرض کی اے اللہ تعالیٰ کے رسول! کیا آپ کے ساتھ بھی ہے؟ ارشادفرمایا کہ ہاں میرے ساتھ بھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی کہ وہ (ہمزاد شیطان) مسلمان ہو گیا لہٰذا وہ مجھے سوائے بھلائی کے کچھ نہیں کہتا۔ (مسلم)
اس حدیث کی شرح میں مرقاۃ میں ہے کہ جب کوئی انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو ا س کے ساتھ ہی ابلیس کے ایک شیطان پیدا ہوتا ہے جسے فارسی میں ہمزاد عربی میں وسواس کہتے ہیں۔ ظاہر یہ ہے کہ ابلیس کے ہر ہر آن سینکڑوں بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں، مطابق تعداد اولاد انسان جیسے مچھلی، ناگن سانپ بیک وقت ہزار ہا انڈے دیتی ہے۔ طاغوتی جراثیم ہر آن بچے دیتے رہتے ہیں۔
جس زمین پرہم زندگی گزار رہے ہیں اسی پر وہ بھی رہتے ہیں، ان کی رہائش اکثر خراب اور گندگی والی جگہ ہوتی ہیں مثلا بیت الخلا یا گندگی والی جگہ وغیرہ۔ اسی لیے نبی صلی للہ علیہ وسلم نے ان جگہوں میں داخل ہوتے وقت اسباب اپنانے کا کہا ہے۔ یعنی دعائیں اور اذکار۔
قبرستانوں اور ویران جگہوں پر بھی ان کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح گھروں کی چھتوں پر بھی یہ مخلوق رہتی ہے۔ اسی لیے شام کے وقت سورج غروب ہوتے وقت چھوٹے بچوں کو چھتوں پر چھوڑنے سے منع فرمایا گیا ہے۔