عدل۔۔۔ امن کی ضمانت

758

حافظ عبدالرحمن سلفی
امام کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے دنیا کے سامنے عدل و انصاف کی وہ روشن مثال قائم فرمائی جو رہتی دنیا تک کے لیے مشعل راہ ہے۔ یقیناً عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ حقدار کو پورا پورا حق ادا کر دیا جائے اور ظالم کو اس کے جرم کی صحیح سزا ملے تاکہ مظلوم کے جذبہ انتقام کو بذریعہ قانون تسلی و تشفی ہو وگرنہ معاشرے میں جرم در جرم ہوتے رہیں گے اور لوگ انصاف نہ ملنے پر قانون خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ اسلام مکمل عدل کی ہدایت کرتا ہے اور ظلم سے روکتا ہے ۔ مجرم کو بس اسی قدر سزادی جا سکتی ہے جو اس نے جرم کیا ہے اس سے زائد سزا ظلم کے زمرے میں آئے گی جس کی اسلام ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ جیسا کہ خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب ہدایت میں عدل و انصاف کے بارے میں فرمایا!
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔ (سورۃ المائدہ : 8)
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا۔ ترجمہ: اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتے دار ہی ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ (سورۃ الانعام آیت 152)
ان آیات مبارکہ سے عدل وانصاف کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ یہ عمل کس قدر حساس اور لازمی ہے کہ اس کے تقاضوں کو اللہ کے ڈر خوف کے ساتھ انجام دیا جائے اور اگر عدل کرتے ہوئے اپنا قریب ترین عزیز رشتے دار بھی اس کی زد میں آ رہا ہو تو رشتوں کی پرواہ کیے بغیر عد ل کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور ہر طرح کے تعلق، سفارش یا رشوت وغیرہ جیسی لعنتوں کو پائے استحقار سے ٹھکرادیا جائے تاکہ منصف بارگاہ ایزدی میں سرخرو ہو اور مظلوم کی داد رسی ہو اور مقتدر صاحب ثروت یا اقتدار اور دولت کے نشے میں چور لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو اور وہ ظلم و تعدی سے باز رہیں اور ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب بے لاگ انصاف ہو، جو آج ہمارے معاشروں میں مفقود ہے جس کی وجہ سے ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے، اور ہم قوموں کی برادری میں بے وزن ہو کر رہ گئے ہیں۔ عدل کرنے کو اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔
ترجمہ: اور انصاف کرو بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورۃ الحجرات: 9)
گویا عدل کرنا حب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ بنا بریں ایک مسلمان قول و فعل اور فیصلہ کرنے میں انصاف کو تلاش کرتا ہے۔ یہ اس کی طبعی صفت ہوتی ہے جو کسی صورت اس سے جدا نہیں ہو سکتی ۔ اس کا شیوہ ہوتا ہے کہ وہ جو بات کہتا اور جو کام کرتا ہے عدل و انصاف پر مبنی ہوتا ہے۔ حقیقی مسلمان کسی پر ظلم و زیادتی سے بہت دور رہتا ہے۔ اس کی انصاف پسندی کو ہوائے نفس اور دنیاوی کوئی خواہش و شہوت ڈگمگا نہیں سکتی اور انہی صفات کی وجہ سے وہ اللہ کی محبت، رضا، اعزازات وانعامات کا مستحق قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی بیان ہوا کہ وہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العالمین کے ہاں انصاف کرنے والوں کے اعزا ز واکرام کا بتادیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
ترجمہ: انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہوں گے وہ جو اپنے فیصلہ جات، اہل و عیال اور جو ان کی حکمرانی میں ہوں، میں انصاف کرتے ہیں۔ (مسلم)
معلوم ہوا کہ عدل کرنا کس قدر عظمتوں کے حصول کا ذریعہ ہے اور بے عدلی کس قدر ظلم و تعدی اور ہلاکت وبربادی کا ذریعہ ہے۔ جبکہ عادل حکمران اللہ کے پسندیدہ ترین لوگوں میں سے ایک ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ترجمہ: سات طرح کے انسانوں کو (قیامت کے دن) اللہ تعالیٰ اپنے سایے میں جگہ دے گا جب کہ اس کے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا ان میں ایک امام عادل (یعنی انصاف کرنے والا حکمران یا قاضی ہے)۔ (صحیح بخاری)
عدل کے بہت سے مظاہر ہیں جن میں ایک حقیقی مسلمان نمایاں ہوتا ہے۔
(1) سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ اس کے ساتھ عدل کیا جائے یعنی اس کی عبادات وصفات میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ اس کا شکر ادا کیا جائے اور کفران و ناشکری سے بچا جائے۔ اس کی اطاعت کی جائے اور نافرمانی سے بچا جائے اسے یاد رکھا جائے اور کسی حال میں بھی بھلایا نہ جائے۔ بدقسمتی سے انسانیت نے ہمیشہ اس معاملے میں ناانصافی سے کام لیا اور اللہ کی مخلوقات کو اس کا ہمسر وساجھی قرار دیا۔ اس لیے فرمایا۔
ترجمہ: بے شک شرک سب سے بھاری ظلم ہے۔ (سورۃ لقمان: 13)
(2) لوگوں کے فیصلے میں انصاف یعنی ہر حق والے کو اس کا پورا پورا حق ملے او راس کی داد رسی ہو۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے کہ میرے رب نے مجھے انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ (سورۃ الاعراف: 29)
عدل وانصاف لوگوں کے درمیان اس انداز میں کرنا کہ کافر و مسلم کی بھی تمیز روا نہ رکھی جائے اگر کافر حقدار ہے تو اس کو اس کا حق دلایا جائے جیساکہ سورۃ ا لنسا کی آیت 65 کے شان نزول میں وارد ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے حقدار سمجھا اس کے حق میں فیصلہ فرما دیا جبکہ فریق مخالف نے اس فیصلے کو رشتے داری وقرابت کا سبب جانا حالانکہ امام کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے کسی رعایت کے بغیر محض دلائل و براہین کی روشنی میں فیصلہ فرمایا تھا۔
(3) بیویوں اور اولاد میں انصاف یعنی ان میں برابری کی جائے اور کسی کے ساتھ دوسرے کے مقابلے پر برتری کا سلوک روا نہ رکھا جائے۔
(4) بات میں عدل یعنی جھوٹ نہ بولے کذب اور باطل سے پرہیز کرے۔
(5) عقائد و نظریات میں عدل یعنی حق اور سچائی کو تسلیم کیا جائے خلاف حقیقت اور خلاف واقع باتوں کو دل میں جگہ نہ دی جائے۔
(6) فیصلے میں خواہش نفس، عصبیت اور دشمنی آڑے نہیں آنی چاہیے۔ عدل کا یہ اتمام جس معاشرے میں ہوگا وہاں امن سکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اس نکتے کو بھی خوب سمجھ لیا تھا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن روحہؓ کی بابت آتا ہے کہ جب امام کائنات صلی اللہ علیہ سلم نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں۔ یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو لیکن اپنے محبوب صلی اللہ علیہ سلم کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں۔ یہ سن کر ان یہودیوں نے کہا: اسی عدل کی وجہ سے آسمان و زمین کا یہ نظام قائم ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)
معلوم ہوا کہ عدل و انصاف کرنے والی قومیں دنیا میں عروج حاصل کرتی ہیں اور ان کے معاشروں میں امن واستحکام ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ عدل کی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
عدل کے برخلاف ظلم قوموں کو تباہ برباد کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حال میں عدل وانصاف کے احکامات دیے ہیں اور قوموں کی بقا کی ضمانت بھی اسی وصف عالیہ میں مضمر ہے۔
آج ہمارے ہاں عدل وانصاف کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور ہر طرف ظلم و تعدی کا بازار گرم ہے۔ اگر ہم اپنی قوم کا استحکام اور بقا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلامی نظام عدل پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ وگرنہ ذلت و رسوائی اور قومی تباہی و بربادی ہمار ا مقدر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عدل و انصاف کی توفیق مرحمت فرمائے تاکہ ہمارا ملک مستحکم و ترقی یافتہ ہو اور ہر طرف امن واطمینان کی فضا قائم ہو۔ آمین یا رب العالمین