وہاں بھی نریندر مودی کی ہم فکر اور ایک طرح سے باجگزار حسینہ واجد کی حکومت ہے چنانچہ اس کا رویہ بھی ان مظلوموں سے ہمدردانہ نہیں ہے۔ جبکہ برمی حکومت کا موقف ہے کہ یہ روہنگیا مسلمان بنگلا دیش ہی سے آئے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے کیوں کہ یہ مسلمان صدیوں سے اراکان کے علاقے میں آباد ہیں بلکہ یہاں ان کی حکومت بھی رہی ہے۔ نریندر مودی نے بھی برمی حکومت کے اس موقف کی تائید کی کہ روہنگیا مسلمانوں نے برمی فوج پر حملہ کیا تھا۔ اگر یہ سچ بھی ہو تو یہ بتایا جائے کہ کتنے فوجی مارے گئے اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی شروع کردی جائے اور لاکھوں افراد کو بے وطن کردیا جائے۔ نریندر مودی برما کا دورہ کرنے سے پہلے اسرائیل بھی جاچکے ہیں اور وہاں بھی مسلمانوں کو کچلنے کے تجربات کا تبادلہ کیا گیا ہوگا کیوں کہ اسرائیل جو کچھ فلسطین میں کررہا ہے وہی کچھ نریندر مودی کی فوج مقبوضہ کشمیر میں کررہی ہے۔ اب یہ اطلاع ہے کہ روہنگیوں کے قتل میں اسرائیلی اسلحہ استعمال کیا جارہا ہے۔ آنگ سان سوچی جن مظالم کو جھوٹ قرار دے رہی ہے اس کے بارے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو کا کہنا ہے کہ انسانیت سوز مظالم سے ہر شخص باخبر ہے، مظالم جاری رہے تو پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا، میانمر مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن بند کرے اور مسلمانوں کو برما کی شہریت دی جائے۔
دریں اثنا پرتشدد واقعات میں مزید درجنوں مسلمان شہید ہوگئے، بنگلا دیش جاتے ہوئے تارکین وطن کی کشتی ڈوب گئی۔ میانمر کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے لیے بارودی سرنگیں بچھا دیں تاکہ زندہ نہ جاسکیں۔ دھماکوں میں بھی متعدد جاں بحق ہوگئے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس وقت برمی مسلمانوں کے خلاف سوچی حکومت کے ساتھ امریکا، بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ ہوگیا ہے۔ بلیک واٹر طرز کی اسرائیلی کمپنی متاثرہ صوبے میں برمی اسپیشل فورسز کی تربیت کررہی ہے۔امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ متاثرہ برمی صوبے میں چین نے انرجی پروجیکٹس لگا رکھے ہیں امریکا ان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اس صورت حال میں تمام مسلم ممالک محض تماشا دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں دعائے قنوت نازلہ پڑھی جارہی ہے، کمزور اقوام یہی کرسکتی ہیں ۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد بے مقصد لگتا ہے، برما میں مظالم پر خاموشی تشویش ناک ہے۔ سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ اسلامی دنیا میانمر کے سفیروں کو اپنے ممالک سے بے دخل کرے۔ کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں مگرہم محض مذمت کرنے پر اکتفا کررہے ہیں۔ ترکی نے اتنا کیاہے کہ اجازت ملنے پر مظلوم مسلمانوں کے لیے امدادی سامان بھیج دیا ہے۔فرمان رسولؐ کے مطابق مسلمان وہن کی بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں اور بڑی تعداد کے باوجود ان کی حیثیت سمندر کے جھاگ کی طرح ہے۔