ڈاکٹر عبدالقدیر خان قائد اعظم کا سایہ بھی نہیں ہیں مگر اس کے باوجود ان کی اہمیت کو ظاہر کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ہم کہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان بنایا اور ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان بچایا۔ یعنی ڈاکٹر عبدالقدیر نے وہ کام کیا جو پوری فوج کیا پوری قوم بھی نہیں کرسکتی تھی۔
وطن عزیز کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ بھارت کی ہندو قیادت نے کبھی پاکستان کے نظریے اور اس کے وجود کو دل سے قبول نہیں کیا۔ چناں چہ وہ پہلے ان سے ہمارے نظریے اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے وجود کے درپے تھی۔ اس نے کشمیر پر طاقت کے ذریعے قبضہ کیا۔ اس نے حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ پر فوج کشی کرکے انہیں پاکستان کا حصہ بننے سے روکا۔ قوم اس پوری صورت حال پر کچھ بھی نہ کرسکی اس لیے کہ اس کے پاس بھارت کے مقابلے کی طاقت نہ تھی۔ قائد اعظم کی اپیل پر قبائلی پاکستان کا بازو نے شمشیرزن بن کر سامنے نہ آتے تو آزاد کشمیر ہمارے پاس ہے وہ بھی بھارت کے قبضے میں ہوتا۔ بھارت نے ہم پر 1965ء کی جنگ مسلط کی۔ اس جنگ میں اسے کامیابی نہ ملی تو وہ 1971ء میں مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہوا۔ اس بار بھارت ہماری داخلی کمزوریوں، حماقتوں، ضلالتوں اور سازشوں کی وجہ سے کامیاب رہا۔ قائد اعظم کا پاکستان ٹوٹ گیا اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔
یہ ایسی ذلت ہے جو ہماری اجتماعی روح میں آج تک زہر گھول رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی متعصب ہندو قیادت صرف پاکستان توڑنے پر مطمئن نہ ہوئی بلکہ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کے نظریے پر بھی حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ فوج کیا پوری قوم بھارت کی زبان اور اقدامات کو لگام نہ دے سکی۔ 1947ء سے 1971ء تک کا عرصہ 24 سال پر مشتمل ہے۔ ان 24 برسوں میں بھارت نے ہم پر تین جنگیں مسلط کیں۔ کشمیر، حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ پر قبضہ کیا۔ پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر نے 1984ء میں ایٹم بم بنا کر پاکستان کے حوالے کردیا۔ 1984ء سے سن 2017ء تک کا عرصہ 33 سال پر مشتمل ہے۔ اس عرصے میں بھارت ہم پر کوئی جنگ مسلط نہ کرسکا۔ اس نے اس عرصے میں ایک بار بھی ہمارے نظریے پر حملہ نہیں کیا۔ وہ سرحدوں پر جنگ جیسی صورت حال پیدا کیے ہوئے ہے مگر اسے مکمل جنگ کی جرأت نہیں ہورہی۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کا بنایا ہوا ایٹم بم۔ 1980ء کے اوائل میں بھارت نے پاکستان پر حملے کی تیاری کرلی تھی۔
جنرل ضیا الحق کو اس کی اطلاع تھی۔ وہ کرکٹ ڈپلومیسی کی آڑ میں بھارت پہنچے، انہوں نے ہوائی اڈے پر کھڑے ہو کر بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی سے صرف اتنا کہا کہ بھارت نے پاکستان پر حملے کی حماقت کی تو اس بار صرف روایتی جنگ نہیں ہوگی، ہماری سلامتی کو خطرہ ہوا تو پاکستان ایٹم بم استعمال کرے گا۔ جنرل ضیا نے راجیو گاندھی سے کہا کہ میری پاکستان واپسی تک اگر آپ نے جنگی تیاریوں کو صفر میں تبدیل نہ کیا تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس دھمکی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنرل ضیا کی نئی دہلی سے اسلام آباد واپسی تک بھارت کا جنگی جنون رخصت ہوچکا تھا۔ ہمیں جنرل ضیا سے درجنوں اختلافات ہیں مگر انہوں نے جنگ پرست بھارت کی گردن پر پاؤں رکھا۔ ہم جنرل ضیا کی جرأت کو سلام کرتے ہیں مگر یہ جرأت ڈاکٹر عبدالقدیر کے ’’کارنامے‘‘ سے نمودار ہوئی۔ یہ کارنامہ موجود نہیں تھا تو ملک ٹوٹ رہا تھا اور ہمارے 90 ہزار فوجی بھارت کے آگے ہتھیار ڈال رہے تھے اور اس عمل کو روکنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل پرویز مشرف کے نام کے ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر کا نام لکھنا بھی ڈاکٹر عبدالقدیر کی توہین ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی اوقات ہی کیا ہے۔ ایسے جرنیل چار آنے میں آٹھ مل جاتے ہیں۔ ایسے ڈاکٹر عبدالقدیر تو، ایسے سائنس دان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور انہیں کھربوں روپے خرچ کرکے بھی پیدا نہیں کیا جاسکتا۔
دنیا میں درجنوں سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر سے زیادہ علم اور اہلیت کے حامل ہوں گے مگر ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کے کارنامے نے اس ملک اور قوم کو بھارت جیسی شیطانی ریاست سے محفوظ بنایا ہو۔ جنرل پرویز خود کو چیف آف آرمی اسٹاف کہتے ہیں لیکن وہ ’’چیف‘‘ بہت کم اور ’’چیپ‘‘ بہت زیادہ تھے۔ ان کی ’’Cheapness‘‘ کی جو داستانیں عام تھیں ان کا ذکر تو رہنے ہی دیں، ان کی عزت افزائی کے لیے قوم کو اتنا یاد دلا دینا کافی ہے کہ ان کی امریکا اور بش پرستی کو دیکھتے ہوئے مغربی ذرائع ابلاغ انہیں ’’مشرف‘‘ کے بجائے ’’بشرف‘‘ کہتے تھے۔ اسرائیل کا صدر سرعام کہتا تھا کہ میں رات کو سونے سے پہلے جنرل پرویز مشرف کی سلامتی کے لیے دعا ضرور کرتا ہوں۔ انہوں نے امریکا پرستی میں فوج کے ادارے کی ساکھ اتنی خراب کردی تھی کہ فوج نے عام فوجیوں کو وردی پہن کر بستیوں میں جانے سے روک دیا تھا۔ فوج کی وردی کو ’’فخر‘‘ سے Risk بنانے کا کارنامہ جنرل پرویز کی پالیسیوں ہی کا نتیجہ تھا۔
جنرل پرویز نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ انہوں نے ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی معلومات اور ٹیکنالوجی مہیا کرکے ’’مال‘‘ بنایا۔ لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر پر مال بنانے کا الزام اتنا ہی لایعنی ہے جتنا کہ تریاق کو زہر قرار دینا۔ جس شخص نے پوری زندگی ملک و قوم کو دے دی وہ چند کروڑ روپے بنا کر کیا کرے گا؟۔ لیکن اتنا تو ہمیں بھی معلوم ہے کہ ایٹمی راز پاکستان سے ایران گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام کیسے ہوا؟ ڈاکٹر عبدالقدیر کے حوالے سے یہ بات ایک سامنے کی چیز ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر عام آدمی نہیں تھے ان کے گرد ایک نہیں کئی حفاظتی حصار تھے۔ چناں چہ ڈاکٹر عبدالقدیر اپنی مرضی سے کہیں نہیں جاسکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایٹمی راز پاکستان سے ایران پہنچے تو اہم ریاستی اداروں نے یہ فیصلہ کیا ہوگا۔ لیکن جس طرح ملک توڑنے کا الزام بھٹو اور مجیب پر ڈال کر بھٹو اور مجیب سے ہزار گنا طاقت ور جرنیلوں کو بچالیا جاتا ہے اس طرح ایٹمی رازوں کی منتقلی کا سارا الزام ڈاکٹر قدیر پر ڈال دیا گیا۔
یہ ظلم ہے۔ جنرل نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ایک ’’قومی ہیرو‘‘ کو ’’زیرو‘‘ بنانے کی ناپاک کوشش تھی اور ہے۔ لیکن جنرل پرویز ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر قوم کی تاریخ میں امر ہوچکے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ملک کی تاریخ لکھنے والا جب بھی حقیقی تاریخ لکھے گا وہ جنرل پرویز مشرف پر تھوکے گا۔ اس لیے کہ جنرل پرویز مشرف نے ایک اسلامی ریاست پر حملے میں امریکا کی مدد کرکے اسلام کی تعلیمات سے غداری کی ہے۔ اس لیے وہ اسلام کا غدار ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی امریکا پرستی نے ہماری تہذیب کو شرمندہ کیا اس لیے وہ ہماری تہذیب کا غدار ہے۔ جنرل پرویز نے ہماری تاریخ کو پامال کیا اس لیے وہ ہماری تاریخ کا غدار ہے۔ جنرل پرویز نے پاکستان کی آزادی، خود مختاری، وقار، قوم کی خود تکریمی، Self Respect کے پرخچے اڑائے اس لیے وہ ملک و قوم کا غدار ہے۔