پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی ادارے دشمن کا نشانہ

281

zc_Muzaferبھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور امریکی ادارے پاکستان کے خلاف نفسیاتی جنگ میں بھی مصروف ہیں۔ بھارتی ایجنسی کا نشانہ پاکستان کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ہے جب کہ امریکی ادارے پاکستان کے بڑے تاجروں، صنعت کاروں اور مالدار گروپوں کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہیں۔ اس کام میں امریکی اور بھارتی ایجنسیاں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔ بھارتی ایجنسیاں پاکستان پولیس کے بعض اہم افسران تک غلط معلومات پہنچاتی ہیں جن کی بنیاد پر پاکستانی افسران کسی تحقیق کے بغیر اپنے ہی ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور تعلیم یافتہ افراد پر ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ اس کے بعد نمبر بنانے کا شوق اور ترقی کی دوڑ میں وہ جتنے جھوٹ چاہتے ہیں گھڑ لیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکا کے کہنے پر صرف دینی مدارس نشانہ تھے لیکن اب بھارت کے خفیہ ادارے پاکستانی پولیس اور ایجنسیوں تک ایسی خبریں پہنچاتے ہیں جن کے ذریعے مختلف دہشت گرد گروپ وضع کیے گئے اور ان کے مبینہ سربراہ اور ماسٹر مائنڈ گھڑ لیے گئے۔ پھر جب بھی کسی پولیس افسر کو ترقی یا شاباش کی ضرورت ہوتی وہ پہلے سے گرفتار کسی شکار کو اپنی مرضی کے میدان میں لا کر ہلاک کردیتا ہے، کبھی خود کش حملہ آور بنا کر اور کبھی فائرنگ کرنے والا قرار دے کر۔



تازہ واردات میں بھی بڑے تضادات ہیں، ایک طرف متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ خواجہ اظہار الحسن پر حملے میں لندن گروپ بلکہ الطاف حسین ملوث ہیں جب کہ پولیس اسے انصار الشریعہ گروپ کی کارروائی قرار دے رہی ہے اور اگر دونوں ایک ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ الطاف حسین کا انصار الشریعہ سے کیا تعلق ہے۔ اسی طرح پولیس افسران اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو اچانک گھروں سے اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں خبریں جاری کرتے ہیں کہ فلاں دہشت گرد۔ اس نے دہشت گردوں کے گروہ کی مدد کی، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن بعد میں بیش تر مقدمات عدالت میں ثابت نہ ہوسکے۔ آج کل پولیس اہلکار سانحہ صفورا کے جن ملزمان کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں ان میں سے بیش تر کا مقدمہ تو پلٹ چکا ہے۔ اس قسم کی کارروائیوں میں رپورٹ دینے کا انداز ایسا ہوتا ہے جس سے یہ محسوس ہو کہ پاکستان کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ دہشت گردی کی طرف مائل ہورہا ہے۔ ہر خبر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے قبضے سے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور یو ایس بی برآمد۔ وہ ایک دوسرے سے گفتگو میں مخصوص ایپ استعمال کرتے تھے۔ اب یہ بتایا گیا ہے کہ وہ گلے میں تعویذ لٹکایا کرتے تھے۔ لیپ ٹاپ، موبائل اور یو ایس بی ہر پڑھے لکھے یا عام آدمی کے لیے بھی عام بات ہے۔ اسے دہشت گردی کا آلہ بنادیا گیا ہے۔



اب تک کراچی پولیس کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرچکی ہے لیکن ان کے خلاف الزامات ثابت نہ ہوسکے۔ ایک اخباری گروپ کے چکر میں ایگزیکٹ بند کرادیا۔ کراچی میں ایم بی بی اے، بی بی اے کروانے والے ادارے کے پرنسپل کو شبہے میں گرفتار کرکے دہشت گرد قرار دے دیا گیا، اب کئی اساتذہ کرام کو محض اس لیے اُٹھا لیا گیا ہے کہ ان کے بیٹوں کا نام کسی مبینہ واردات میں لیا گیا ہے۔ پولیس اہلکار اور افسران ہر گرفتار شخص اور ہلاک شدہ مبینہ دہشت گرد کا تعلق طالبان، داعش یا ٹی ٹی پی وغیرہ سے جوڑتے ہیں۔ کبھی ملالہ پر حملے میں ملوث ثابت کرتے ہیں، اب تو اس قدر تیز رفتاری سے گتھیاں سلجھائی جارہی ہیں کہ لگتا ہے لیاقت علی خان کے قتل میں ملوث شخص اور ماسٹر مائنڈ بھی گرفتار کرلیں گے اور اگر موقع ملے تو جان ایف کینیڈی کے قاتلوں کو بھی پکڑ کر ماسٹر مائنڈ کے ساتھ میڈیا میں پیش کردیں گے۔ تازہ نشانہ جامعہ کراچی اور جامعہ این ای ڈی ہیں۔ اس وقت ان جامعات کی انتظامیہ اور اساتذہ کی صلاحیتوں اور اعصاب کا امتحان ہے۔ کیوں کہ پاکستانی پولیس اور ایجنسیاں تو پوری جامعہ کراچی اور جامعہ این ای ڈی کو دہشت گرد قرار دینے پر تُلے ہوئے ہیں۔



اب ڈاکٹر اشتیاق قریشی جیسا وائس چانسلر کہاں سے لائیں جو ایس ایس پی کو سلور جوبلی یادگار کے پاس روک دیتا تھا۔ وردی میں جامعہ میں داخلے کے لیے تحریری اجازت لینا پڑتی تھی۔ اب تو یہ افواہیں پھیلا کر طلبہ و طالبات کو اور والدین کو خوفزدہ کیا جارہا ہے کہ تمام طلبہ و طالبات کو متعلقہ تھانے سے کریکٹر سرٹیفکیٹ لینا ہوگا۔ لیجیے پولیس کو کروڑوں روپے کمانے کا راستہ مل گیا، طلبہ کو تنگ کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ لیکن اس پولیس کے کریکٹر کی ضمانت کون دے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ اے ڈی خواجہ پورے اعتماد کے ساتھ پولیس کے کردار کی ضمانت نہیں دے سکتے کیوں کہ خود ان کے علم میں ہے کہ پولیس افسران اور اہلکار جرائم میں ملوث ہیں اور ہزاروں مقدمات ان کے خلاف پڑے ہوئے ہیں۔
بات ہورہی تھی امریکا و بھارت کی نفسیاتی جنگ کی۔ جب امریکی کسی کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں تو اس ملک کے اہم معاشی اداروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے اور پولیس ہی اپنے ملک کے لوگوں کا تحفظ کرنے کے بجائے انہیں خوفزدہ کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ تین روز سے کراچی کے عوام پر یہ خوف طاری کردیا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کو کردار کا سرٹیفکیٹ پولیس سے لینا ہوگا۔ ایک خبر یہ جاری کی گئی کہ جامعہ کراچی کی انتظامیہ نے حساس اداروں کو طلبہ و طالبات کا ریکارڈ فراہم کردیا ہے۔



حالاں کہ اگلے دن جامعہ کے ترجمان نے اس کی تردید بھی کی لیکن باقی کام سماجی میڈیا نے کردیا، پورے ملک میں یہ خبر چل رہی ہے کہ جامعہ کراچی نے حساس اداروں کو ریکارڈ فراہم کردیا ہے۔ پاکستان ہی میں سرکاری اداروں اور پولیس کو ریکارڈ فراہم کرنے پر خوف پھیلتا ہے ورنہ دنیا میں لوگ اپنے اداروں کو ہر قسم کے اعداد و شمار بڑی آسانی سے دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن تو اپنی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں اور سماجی رہنماؤں کو غور کرنا ہوگا کہ وہ کوے کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں اپنے کان کو ہاتھ لگا کر نہیں دیکھتے۔ اے ڈی خواجہ، پاک فوج، وزیر اعلیٰ، وزیراعظم اور سیاسی و طلبہ تنظیموں کو بھیڑ چال کا حصہ بننے سے بچنا ہوگا۔ ہر خبر کے ساتھ ہی بعض خاص پولیس افسروں کو ترقی اور انعام سے نوازنے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔ یہ سارے انعامات سال بھر بعد بھی دیے جاسکتے ہیں۔ خصوصاً افسران کے بہت سے دعوے غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ اس ہاتھ کو بھی سامنے لانا ضروری ہے جو ہمارے سیکورٹی اداروں کو استعمال کررہا ہے، لسانی، سیاسی، فرقہ وارانہ تنظیموں کے ’را‘ سے تعلقات تو اب ڈھکے چھپے نہیں تو پھر یہ پولیس میں بھی ہوسکتے ہیں۔