طلبہ کو ایجنسیوں کے حوالے کرنے کی تجویز

600

Edarti LOHاب تک تو مدارس کو دہشت گردی کی آماجگاہ اور دہشت گرد تیار کرنے کے مراکز قرار دے کر بدنام کیا جاتا رہا ہے مگر اب عصری تعلیمی اداروں اور جامعات سے دہشت گرد نکل رہے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے انکشافات کے مطابق کوئی پی ایچ ڈی انجینئر اور انجینئرنگ یونیورسٹی کا استاد نکلا، کوئی جامعہ کراچی میں اپلائیڈ فزکس کا طالب علم۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان سب کا تعلق کالعدم انصار الشریعہ سے جوڑا ہے۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن پر حملے کے بعد سے یہ پکڑ دھکڑ شروع ہوئی ہے اور گزشتہ بدھ کو حملے میں ملوث بلوچستان یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو کوئٹہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ چنانچہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کی صدارت میں ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ جامعہ کے طالب علموں کا ریکارڈ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس کے حوالے کردیا جائے۔ اتنا ہی نہیں داخلے کے وقت پولیس سے کیرکٹر سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرنا ہوگا۔ ان اقدامات سے ایجنسیوں اور پولیس کے تو مزے آجائیں گے اور ان کے لیے کمائی کے نئے دروازے کھل جائیں گے۔



سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لیے ہر تھانے میں دکانیں قائم ہوجائیں گی۔ اسی طرح جب طالبان علم کا ریکارڈ ان کے حوالے کیا جائے گا تو وہ کسی پر بھی دباؤ ڈال کر اور دھمکی دے کر کمائی کریں گے۔ یہ محض خدشات نہیں بلکہ پولیس اور انٹیلی ایجنسیاں ان معاملات میں بہت بدنام ہیں اور ان کے جرائم میں ملوث ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ پھر جامعہ کراچی کے فاضل وائس چانسلر نے یہ وضاحت بھی نہیں کی کہ کیا طالبات کے کوائف بھی پولیس اور ایجنسیوں کے حوالے کیے جائیں گے۔ اس طرح طلبہ و طالبات کو بلیک میل کرنے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ اس تجویز کے خلاف ایوان بالا کے صدر نشین جناب رضا ربانی کھل کر بولے ہیں اور انہوں نے رئیس الجامعہ کراچی کے فیصلوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اور پولیس سخت ادارے ہیں ان سے طلبہ کے رابطے کے باعث بے چینی بڑھے گی۔ طالب علموں کا ریکارڈ حساس اداروں کو دینا افسوس ناک امر ہوگا۔ رضا ربانی نے وائس چانسلر کے نام اپنے خط میں مشورہ دیا ہے کہ نصاب کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور نوجوانوں میں انتہا پسندی اور تشدد روکنے کے اقدامات کیے جائیں۔ رضا ربانی نے یہ بھی کہا کہ سینیٹ کی قرار داد کے مطابق طلبہ تنظیمیں بحال کی جائیں، ادبی اور تعلیمی سرگریموں سے ایک مختلف موقف جنم لے گا۔



طلبہ تنظیموں پر پابندی سے طلبہ میں مثبت سرگرمیوں کے راستے بند کردیے گئے ہیں چنانچہ کچھ نوجوان منفی سرگرمیوں میں مبتلا ہو کر پرتشدد راستے اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کا حل طلبہ کے کوائف ایجنسیوں کے حوالے کرنا نہیں۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ تعلیمی اداروں ، بالخصوص جامعات میں ایجنسیوں کے ارکان بھی مختلف بھیس میں ہوتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی ناقص ہے۔ امید ہے کہ رضا ربانی کے اعتراض کی روشنی میں طلبہ و طالبات کو ایجنسیوں کے اختیار میں دینے کی کوشش واپس لے لی جائے گی۔پھر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ پولیس کو کچھ دے دلا کر کیرکٹر سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کیا جائے گا۔ رئیس الجامعہ کراچی نجانے کس دنیا میں رہتے ہیں۔ یہاں تو پیسے دے کر شناختی کارڈ بھی آسانی سے بن جاتا ہے اور پاسپورٹ بھی مل جاتا ہے۔ کسی دن نادرا کے کسی دفتر کا چکر لگا کردیکھ لیں۔ نوجوانوں میں انتہا پسندی اور تشدد کے رجحانات کو روکنے کے لیے مذہب سے بڑھ کر کوئی نسخہ نہیں ۔ لیکن تعلیمی اداروں میں اسلامیات کے نام پر جو پڑھایا جاتا ہے وہ محض امتحان پاس کرنے کے لیے رٹ لیا جاتا ہے، اندر نہیں اترتا۔ علما کرام اور ائما مساجد اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کی رہنمائی کریں اور مسلسل کرتے رہیں۔ تشدد پر آمادہ نوجوان مذہب کے نام ہی پر ورغلائے جاتے ہیں ۔ ان کو صحیح راہ دکھانے کی ضرورت ہے۔