امریکا کی نئی افغان پالیسی

567

zc_alamgirAfridiڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے شاید پہلے صدر ہیں جو اپنی انتخابی مہم سے لے کر عہدہ صدرات سنبھال کر اور اپنی پہلی صدارتی تقریر سے لے کر حالیہ افغان پالیسی بیان کرنے تک مسلسل تنقید کی زد میں ہیں۔ ان کے متعلق خود امریکی میڈیا اور عوام میں جو ردعمل اور احساس پایاجاتا ہے اس کو دیکھ کر یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی ریاست کے منتخب صدر ہیں جو پوری دُنیا کی قیادت کا نہ صرف علمبردار ہے بلکہ پوری دُنیاپر غلبے کے لیے اس نے پچھلی نصف صدی سے جو اودھم مچا رکھا ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ امریکا کی اسی ہوس نے اسے اگر ایک جانب عراق، شام، لیبیا اور یمن کے محاذوں پر سرگرم عمل رکھا ہوا ہے تو دوسری جانب مشرق بعید میں پکنے والے لاوے کے پیچھے بھی امریکا کی داداگیری کی یہی سوچ کارفرما ہے ، تیسری جانب وہ ایران، روس اور چین کے اس خطے میں بڑھتے ہوئے اثرات کو زائل کرنے کے لیے القاعدہ اور طالبان کے خاتمے کا بہانہ بناتے ہوئے پچھلے سولہ سال میں ناٹو کے 28 ممالک کی کیل کانٹے سے لیس ڈیڑھ لاکھ مسلح افواج کی تمام تر قہر سامانیوں کے باوجود اب تک آدھے افغانستان پر بھی اپنا قبضہ مستحکم نہیں کر سکا ہے۔



امریکا کی افغانستان میں حالیہ مہم جوئی دراصل سوویت یونین کے خلاف آپریشن سائیکلون کے تحت چلائی جانے والی بین الاقوامی مہم کا تسلسل ہے جس کے ذریعے امریکا جنوب مغربی اور وسطی ایشیا کے اس انتہائی اہم جیو اسٹرٹیجک خطے اور یہاں کے بے پناہ قدرتی وسائل پر تصرف حاصل کرنا ہے۔ اس ساری صورت حال میں چوں کہ پاکستان پچھلے چالیس سال سے ایک انتہائی اہم عامل اور امریکی اتحادی کا کردار ادا کرتا رہاہے اس لیے امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان کو یہ کردار آنے والے دنوں میں بھی اسی طرح ادا کرتے رہنا چاہیے جس طرح وہ یہ کردار سرد جنگ کے زمانے میں ادا کرتا رہا ہے۔
امریکا کی نئی افغان پالیسی جسے جنوبی ایشیائی پالیسی کے نئے لیبل کے ساتھ لانچ کیا گیا ہے دراصل ان ہی پالیسیوں کا نیا چربہ ہے جو پہلے سوویت یونین اور بعد ازاں طالبان حکومت کے خاتمے کے لیے پیش کی جاتی رہی ہیں۔



امریکا افغان سرزمین کو ستر اور اسّی کی دہائیوں میں کمیونزم کے خاتمے اور اکیسویں صدی کا پہلااور دوسرا عشرہ انتہا پسندی اوردہشت گردی کے خاتمے کے عنوانا ت کے تحت اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا ہے جب کہ یہی امریکا نوے کی دہائی میں مطلب نکل جانے کے بعد افغانستان اور اس خطے کو خانہ جنگی اور افراتفری کی آگ میں جھونک کر یوں بھاگ گیا تھا گویا یہاں سرے سے اس کا کبھی کوئی مفاد رہا ہی نہیں تھا۔ امریکا کی اِسی دوغلی اور ناقص پالیسی کے باعث افغانستان پچھلی چار دہائیوں سے آگ اور خون کامرکز بنا ہوا ہے۔ افغانستان میں پچھلے سولہ سال کے دوران ڈیڑھ لاکھ اتحادی افواج کی موجودگی اور ڈھائی ہزار امریکی افواج کی ہلاکتوں اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود چوں کہ امریکا افغانستان میں نہ تو طالبان کو شکست دے سکا ہے اور نہ ہی خطے میں چین، روس اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روک سکا ہے، لہٰذا امریکی اسٹیبلشمنٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو بطورمہرہ استعمال کرتے ہوئے یہ کام نئی افغان پالیسی کی صورت میں پاکستان کو دباؤ میں لاکر اور اسے دھمکیاں دے کر حا صل کرنا چاہتا ہے۔



طاقت کے نشے میں بد مست ہر قوم اور ملک کی طرح امریکا کا بھی یہ خیال تھا کہ پاکستان جیسا چھوٹااوربظاہر کمزور ملک ماضی کے تجربے کی روشنی میں امریکی باند ی بننے میں دیر نہیں لگائے گااور امریکا کی جانب سے اسے جو احکامات دیے جائیں گے وہ اس پر بلا چون وچرا عمل پیرا ہو گا۔ امریکا کی حالیہ افغان اور جنوب ایشائی ممالک کے لیے وضع کردہ پالیسی دراصل اسی سوچ کی عکاس ہے حالاں کہ امریکا کے اس حالیہ دھمکی آمیز رویے کی دنیا کی کسی بھی مہذب معاشرے اور پالیسی و ڈپلومیسی کی کسی بھی کتاب اور ڈکشنری میں گنجائش نہیں ہے۔ ایک فوجی بیس پر فوجی یونیفارم میں ملبوس فوجی اہلکاروں کے سامنے انتہائی ڈرامائی اور جذباتی انداز میں غیر روایتی طریقے سے کسی ملک یا خطے کے متعلق تقریرکی صورت میں بیان کی گئی پالیسی کو سوائے جو کر بازی کے اورکچھ نہیں کہا جاسکتاہے۔ پالیسیاں نہ تو اس بچگانہ انداز میں بنائی جاتی ہیں اور نہ ہی پالیسیوں کو پیش کرنے کے لیے یہ بھونڈے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔



صدر ٹرمپ جن سے کسی سنجیدگی اور خیر کی توقع رکھنا یقیناًعبث ہے لیکن پھر بھی بطورا تمام حجت اگر وہ افغانستان کا قضیہ حل کرنے میں واقعتا سنجیدہ اور مخلص ہیں اور وہ اگرسمجھتے ہیں کہ پاکستان اس ضمن میں امریکا کی حقیقی طور پر کوئی مدد کرسکتا ہے تو اسے پھر نہ صرف پاکستان کے متعلق اپنا حالیہ دھمکی آمیز بیان واپس لینا ہو گابلکہ پاکستان کی تجاویز اور سفارشات کی روشنی میں افغان بحران کا کوئی ایسا قابل عمل حل بھی تسلیم کرنا ہو گاجس پر افغان قضیے کے تمام اندرونی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ساتھ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے علاوہ دیگر علاقائی اور بین الاقوامی قوتیں بھی متفق ہوں، افغان مسئلے کا کوئی ایسامتوازن اورپائیدار حل ہی در اصل افغانستان کے کمبل سے امریکا کی جان چھڑا سکتا ہے۔ اس کے سوا امریکا کے لیے اس دلدل سے نکلنے کااور کوئی محفوظ اور متبادل آپشن نہیں ہے۔