تعلیم نسواں اور بچوں کی تربیت

787

عبدالرحمن عمری

معلم اعظم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر شعبوں کی طرح حصول علم کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی ہے، ارشاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ حصول علم ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ (مسند احمد)
اسلام تعلیم نسواں کی نہ صرف اجازت دیتا ہے، بلکہ اسے ضروری بھی سمجھتا ہے، لیکن تعلیم اور اس کی غایت کیا ہونی چاہیے؟ اس کا فیصلہ ضروری ہے۔ خواتین کو دین کی بنیادی تعلیم سب سے پہلے دی جائے، تاکہ وہ اپنے واجبات وفرائض اور دین کے احکام ومسائل کو اپنی ضرورت کی حد تک سمجھ سکیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے لیے اکیلے معلم تھے، لیکن آپ نے نو ازواج مطہرات کے ذریعے صحابیات کو اور ان کے واسطے سے تمام مسلم خواتین کو نو معلمات دیں۔ایک مسلمان مرد یا عورت سے اولین مطالبہ دین کا علم ہے، تاکہ وہ اسلامی زندگی بسر کرسکے، پھر دوسرے علوم کا درجہ آتا ہے۔ اسلام لڑکیوں کی عصری تعلیم کا مخالف نہیں ہے، البتہ مخلوط تعلیم اور اسلامی طور وطریقے سے عاری ہوکر تعلیم حاصل کرنے کا سخت مخالف ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت بہت ساری مسلم لڑکیاں عصری تعلیم حاصل کرکے سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں بے پردہ کام کر رہی ہیں، مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نے ان کو گھر کی چہاردیواری سے نکال کر بازاروں، دکانوں، کلبوں، ہوٹلوں، محفلوں اور عشرت کدوں کی زینت بنا دیا ہے، نیز مخلوط نظام تعلیم نے عورتوں کو غیر شریفانہ زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے اور یہ چیز ان کے لیے کافی خطرناک ہے، بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
ایک عورت کے ساتھ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ اسے کلرک، ٹائپسٹ اور ایئرہوسٹس بننے پر مجبور کیا جائے، اسی صورتِ حال کا اندازہ کرتے ہوئے شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ل:
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ
روش مغربی ہے حد نظر
وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین؟
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
بیٹی، بیوی، بہو وغیرہ اور ہر حیثیت سے عورت کی ذمے داریاں بھی الگ الگ ہوتی ہیں، لیکن ماں کی حیثیت سے اس کی ذمے داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، ان ذمے داریوں کی دو قسمیں ہیں، پہلی قسم کا تعلق بچے کی جسمانی نشوونما سے ہے، مثلاً بچے کو صحیح وقت پہ صحیح خوراک دینا، مناسب لباس کا انتظام کرنا، اس کو گرم اور سرد سے بچانا، بیماری سے حفاظت کرنا اور بیمار ہونے پر تیمارداری کرنا وغیرہ۔ دوسری قسم کا تعلق ذہنی نشوونما سے ہے، مثلاً اسے بولنا سکھانا، جب کچھ بولنے اور سمجھنے کے قابل ہوجائے تو اس سے زیادہ سے زیادہ بات کرنا اور بتدریج اچھی اچھی باتیں بتانا، بلاوجہ ڈانٹ پھٹکار اور ہر اس چیز سے احتراز کرنا جس سے بچے میں خوف یا احساس کمتری پیدا ہو۔ پہلی قسم سے تعلق رکھنے والی ذمے داریوں کو ایک عام عورت بھی انجام دے سکتی ہے، لیکن پہلی قسم سمیت دوسری قسم کی ذمے داریوں کو صحیح ڈھنگ سے نبھانا عام عورت کے بس میں نہیں، ان کو صرف اور صرف ایک تعلیم یافتہ عورت ہی انجام دے سکتی ہے۔ ایک بچے کی پیدائش سے لے کر بڑے ہونے تک اس کی پرورش وپرداخت اور اس کی دیکھ ریکھ اور تربیت میں سب سے اہم اور بنیادی کردار ماں کا ہوتا ہے۔ پرورش کے ان مراحل میں بچے کی ضروریات بے شمار ہوتی ہیں، جن میں سے بیشتر کو ماں پورا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت بچے کا میلان اپنی ماں کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ پرورش کے اس دورانیے میں بچہ اپنی ماں سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور یہ سیکھی ہوئی چیزیں اس کی طبیعت کا حصہ بن جاتی ہیں، ایسے میں ماں اگر تعلیم یافتہ ہے تو وہ اپنے بچے کی پرورش بہترین خطوط پر کرتی ہے، تاکہ اس کا لاڈلا جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے صحت مند اور توانا رہے، اس کے برعکس اگر ماں تعلیم یافتہ نہیں ہے تو بچے کی پرورش صحیح ڈھنگ سے نہیں ہوپاتی، لہٰذا آج وقت کا تقاضا ہے کہ عورتیں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں اور ایک بیٹی، ایک بیوی اور خصوصاً ایک ماں کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں بحسن وخوبی نبھا سکیں اور بچوں کی تربیت بہتر انداز سے کرسکیں۔ یاد رکھیں کہ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درس گاہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بچہ یہیں سے اپنی زندگی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرتا ہے اور یہی ابتدائی تعلیم بچہ کی آنے والی زندگی کو سنوارنے اور بگاڑنے میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔
مسلم خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ دینی تعلیم حاصل کریں، تاکہ وہ اپنے دین کے تئیں حساس ہوں اور بلند کرداری کے ساتھ ایسی زندگی گزاریں جس میں اطاعت وعبدیت کی شان پائی جاتی ہو، اسلام کی عظمت سے دل معمور ہوں، نیز کھانے پینے میں، اٹھنے بیٹھنے میں، رہن سہن میں، پہننے اوڑھنے میں اور رفتار وگفتار میں اسلامی شعار کا مکمل پاس ولحاظ ہو۔ بچوں کی اسلامی تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ماں خود دیندار، صالحہ اور پاک طینت ہو۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی سچائی کی وجہ سے ڈاکووئوں کا گروہ اپنے جر م سے تائب ہوجاتا ہے، اس کے پیچھے ایک ماں کا ہی ہاتھ تھا کہ اس نے اپنے بیٹے کو سچائی کی تعلیم دی تھی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا تھا۔
مسلم خواتین اولاد کی تربیت میں اس بات کا مکمل اہتمام کریں کہ انہیں توحید کی تعلیم سب سے پہلے دیں، ان کا عقیدۂ توحید زندگی کے کسی بھی موڑ پر ڈگمگانے نہ پائے، نیز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرماں برداری کا درس اس انداز میں دیں کہ ان کے دل ودماغ (باقی صفحہ09پر)
میں آپ کی سچی محبت راسخ ہوجائے، ان کو دیو مالائی کہانیوں کے بجائے انبیائے کرام، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور سلف صالحین کے سبق آموز واقعات سنائیں۔ علوم اسلامیہ کی اہمیت وعظمت دلوں میں اتاری جائے، فکر ومزاج، تصور وخیالات، معاملات وعادات کو اسلامی وایمانی رنگ میں ڈھالا جائے، ساتھ ہی ساتھ انہیں اخلاص وللہیت، تقویٰ وپرہیزگاری، اخلاق وکردار، شرم وحیا اور عفت وعصمت کی تعلیم دی جائے، ان کو اخوت وبھائی چارگی، ایثار وقربانی، عفو ودرگذر، جرأت وبہادری اور حقوق کی پاسبانی کی اہمیت وفضیلت سے روشناس کرایا جائے اور معاشرتی آداب سے بھی ان کو آگاہ کیا جائے، تاکہ جب یہ جوان ہوں تو ان کے پاس اسلام کی اتنی روشنی ضرور ہو جس سے وہ صحیح وغلط، سچ وجھوٹ، حلال وحرام اور حق وباطل کو آسانی سے پہچان لیں اور زندگی کی راہ پر کامیابی کے ساتھ محو سفر رہیں۔
خلاصۂ تحریر یہ ہے کہ عورتیں حدود وقیود میں رہتے ہوئے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے بھی لیس ہوں، نیز امور خانہ داری، کشیدہ کاری اور سلائی وغیرہ سے بھی واقفیت ہو۔ ایک تعلیم یافتہ اور ہنرمند عورت ہر جگہ باعزت زندگی گزار سکتی ہے، اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوار سکتی ہے اور اگر معاشی مسائل درپیش ہوں تو اس پر کافی حد تک قابو پاسکتی ہے۔ اس لیے ہماری تمام مائیں بہنیں علم دین ضرور حاصل کریں، امہات المومنین، صحابیات اور دیگر عظیم مسلم خواتین کے کردار کو اپنے سامنے رکھیں اور ان کی زندگیوں کو اپنا آئیڈیل بنائیں، کیوں کہ اگر آپ دینی تعلیم سے آراستہ ہوں گی تو پورے گھر کو اسلام کے سانچے میں ڈھال سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم کو اور ہماری مائوں بہنوں کو علم کی عظمت اور اہمیت کو سمجھنے والا، اس کو حاصل کرنے والا اور دینی علوم کی روشنی میں اولاد کی اسلامی تربیت کرنے والا بنائے، آمین۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
میں نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا